Qalamkar Website Header Image

صحافت کے راجہ گدھ

گدھ جاتی کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ جب ان کے خاندان کا کوئی رکن بیمار ہو جاتا ہے تو وہ اس کے مرنے سے پہلے ہی اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک اور عادت یہ بھی ہے کہ جب ان کا معدہ بھر جاتا ہے تو وہ قے کردیتے ہیں تاکہ مزید کھا سکیں۔ (اگرچہ سائنسی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ گدھ قے اس لیے کرتے ہیں تاکہ ہلکے ہو سکیں اور دشمن کو دیکھ کر تیزی سے اڑ سکیں۔ بھاری معدہ تیز اڑان میں مشکل پیدا کرتا ہے اور سائنسی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گدھ عموما صرف ایسے بیمار جانور پر حملہ کرتے ہیں جو تقریباً مر چکا ہو۔ جس جانور میں بھی تھوڑی سی بھی سکت ہو وہ اس وقت تک انتظار کرتے ہیں جب تک وہ مر نہ جائے)۔

پاکستان میں بھی گدھوں کی ایک ایسی قسم ہے جو نہ تو پیٹ بھرنے کے بعد مزید کھانے کے لیے قے کرتے ہیں نہ ہی اڑان بھرنے کے لیے ہلکے ہوتے ہیں۔ یہ وہ قسم ہے جو اپنی جاتی سے تعلق رکھنے والے کو چونچیں مار مار کر ہلاک کرتے ہیں اور دوسری طاقت ور جاتی سے تعلق رکھنے والے کی موت کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ گدھوں کی وہ قسم کے جو مردار کھانے کی بھی عادی ہے اور شکار کر کے کھانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ ان کا معدہ عمر و عیار کی زنبیل کی طرح کبھی نہیں بھرتا۔

یہ بھی پڑھئے:  محبتوں کے امین - زری اشرف

صحافت کے راجہ گدھوں میں سب سے اعلیٰ نسل کے گدھ وہ ہیں جو یا تو مذہب یا پھر لبرل ازم کا خول چڑھا کر خود کو گدھ کی بجائے مور ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے آپ کو اپنی جاتی سے علیحدہ اور ممتاز نظر آنا ہوتا ہے۔ لیکن اس ممتازیت کے چکر میں انہیں اپنی فطرت کے بر خلاف چھپ کر مردار کھانا پڑتا ہے۔ لیکن بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جب یہ راجہ گدھ یہ ثابت کرنے سے نہیں کتراتے کہ اگر وہ گدھ جاتی سے تعلق رکھتے ہیں تو بھی وہ کوئی معمولی گدھ نہیں بلکہ راجہ گدھ ہیں۔

ایسا ہی موقع گزشتہ دنوں اس وقت آیا جب اپنی ہی جاتی کا ایک شخص ایک بڑے شکاری کے ہاتھوں زخمی ہو گیا۔ اور پھر بھوکے گدھوں نے اس کے مرنے کا انتظار بھی نہیں کیا اور اس گھائل اور لاچار پر پل پڑے۔ اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ ایک گدھے کے ذریعے اس کو اتنی دولتیاں بھی مروائیں کہ وہ ادھ موا ہو گیا۔ گزشتہ پچاس دن سے عامر لیاقت پر پاکستان میڈیا پر آنا بین ہے، آزادی اظہار رائے کے کسی چیمپئین کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ یہ بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  عامر لیاقت ہمارے میڈیا کا گلو بٹ - اختر عباس

اسی طرح ابھی کچھ یی دن پہلے اپنی ہی جاتی کے ایک اور رکن نے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار لی۔ خون دیکھنا تھا کہ بھوکے گدھ پیٹ بھرا ہونے کے باوجود زخمی ممبر پر پل پڑے۔ کایئں کایئں کا ایک ایسا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ اس کو زندہ ہی کھا جاؤ کچھ کا مشورہ تھا کہ پہلے ٹھونگیں مار مار کے ختم کرو اور پھر کھاؤ اور پھر ایک بھوکا بجو دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے پہلے تو اس کو اس کی ہی جاتی کے لوگوں سے بچایا اور پھر اس کو تین خون خوار درندوں کے سامنے ڈال دیا۔ اب صحافت کے راجہ گدھ اس کی موت کے انتظار میں ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس