چودہ دن کی شبانہ روز بھاگ دوڑ کے بعد بالاآخر زینب کا قاتل پکڑ لیا گیا۔ اپنی اپنی جگہ سب نے آواز اٹھائی۔ کسی نے احتجاج میں شامل ہو کر، کسی نے شہادت سے سرفراز ہو کر، کسی نے کالم لکھ کر، کسی نے شعر کہہ کر، کسی نے موم بتی جلا کر اور کسی نے کم ازکم دل میں برا جان کر۔
میڈیا اور سوشل میڈیا نے بہت بڑا اور بہت مثبت کردار ادا کیا۔ فنکاروں، کھلاڑیوں، سیاست دانوں، وکلاء، مذہبی رہنماؤں سب نے ایک ہی مطالبہ کیا "زینب کے لیے انصاف”۔ تفتیش کرنے والوں فرانزک لیب والوں نے کمال ذہانت کا ثبوت دیا۔ آج خادم اعلی، مبارکباد اور تالیوں کی گونج میں اعلان کرگئے کہ ملزم کو جلد ازجلد اور سخت سے سخت سزا ملے گی چاہے اس کے لیے قانون سازی کرنا پڑے۔ سکون ملا کچھ جلتے دل کو قرار آیا۔ لیکن پھر وہی سوالات کی یلغار جن کے آگے ذہن بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔
1۔ بارہویں بچی زینب تک کیا قصور شہر کے اس چھوٹے سے علاقے میں قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے تک کوئی شکایت نہ آئی۔
2۔ کیا صرف اغواء شدہ بچیوں کی کوڑے کے ڈھیروں سے لاشیں اٹھا کر ان کے پیاروں کو دے دینے سے فرض ادا ہوتا رہا۔
3۔ کیا کسی پولیس والے نے اُس وقت تفتیش کرنے کی زحمت نہ کی۔
4۔ ان اہلکاروں کے لیے صرف وقتی معطلی کی سزا کافی ہے جو اس مجرمانہ غفلت کا شکار ہوئے۔
5۔ یہ سب پھرتیاں جو اب دکھائی گئیں کیا پہلے نہیں دکھائی جاسکتی تھیں۔
سوالات ہی سوالات ہیں بس چاروں طرف۔ یہ جو اتنے ذہین و فطین ماہرین ہیں جنہوں نے جیکٹ کے ٹوٹے بٹنوں سے کیس حل کرلیا۔ مفرور ملزم کو اتنی جلد ڈھونڈ نکالا اور پھر سب کچھ اگلوا بھی لیا۔ یہ تو ہمارے لیے بہت قیمتی اثاثہ ہیں۔ یہ ہمارے لیے ہیرے ہیں قیمتی ہیرے۔ اور ہیروز بھی۔
میری حقیر رائے یہ ہے کہ ان تمام ہیروز اور ہیروں کو اکٹھا کر کے ایک ہیرا ہیرو فورس بنا دی جائے۔ جو اپنی قیمت وصول کرنے کے بجائے اپنے آپ کو قیمتی ثابت کریں۔ یہ ہیرو فورس اسی تندہی سے ناحل شدہ کیس حل کرے اور قوم کے لیے اطمینان اور سکون کا باعث ہو کہ ہم بھی انسان ہیں بھیڑ بکریاں نہیں۔ پہلا ٹاسک اور چیلنج ہیرو فورس کے لیے یہ ہونا چاہیے کہ زینب کیس کے پیچھے جو بھی گینگ ہے یا ریکٹ ہے اسے بے نقاب کریں۔ کوئی کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو مجرم آخر مجرم ہی ہوتا ہے اور اسے اپنے جرم کا حساب دینا پڑتا ہے۔ ہر شخص بکاؤ نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ ہیرا ہیرو فورس بھی بکاؤ ثابت نہیں ہوگی۔
اس عظیم فورس کے سربراہ کے طور پر میں خادم اعلی کا نام تجویز کرتی ہوں۔ اب منتظر ہوں نقارخانے میں طوطی بجا کر شاید کہ "ترے دل میں اتر جائے میری بات”۔ یہ سب کچھ ہوجائے تو پھر کسی آئندہ پریس کانفرنس میں ایسے دل دکھا دینے والے سانحات پر برملا تالیاں بجانے کا اخلاقی اور شاید روحانی جواز بھی بہم ہو جائے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn