ایک نوجوان بچی کا ہاتھ تھامے ادھیڑ عمر کی عورت کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو دیکھ کر میں ٹھٹھک کر رہ گیا اور اس سے رونے کی وجہ پوچھے بغیر رہ نہ سکا۔ عورت نے ہمدردی کی شہ پا کر ایک دینی فلاحی ادارے کے دروازے پہ کھڑے کھڑے اپنی داستان غربت کے صفحات یوں الٹنا شروع کیے کہ میری آنکھیں بھی بھر آئیں۔ کہنے لگی کہ میں بہت ہی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ھوں اور لوگوں کے گھروں میں ماسی کا کام کر ک ےگذر اوقات کرتی ہوں۔ کسی نے بتایا تو چند کلومیٹر دور سے بڑی آس لے کر اس دینی ادارے میں اپنی بچی کی شادی کے سلسلے میں مدد کی درخواست لے کر آئی تھی۔ ادارے والوں نے پہلے تو ہم سے کلمہ پوچھا جو ہم نے سنا دیا، پھر نماز کے مختلف اذکار پوچھے جو ہم مکمل نہ بتا سکے تو ہمیں یہ کہہ کر باہر نکال دیا کہ تمہیں نماز نہیں آتی اور ہم صرف نمازیوں کی مدد کرتے ہیں۔
خیر میں نے اوپر بات کی اور بحث و مباحثہ کر کے اس غریب خاتون کا کام تو کروا دیا مگر دل یہ سوچ کے بہت دکھی ھو گیا کہ نہ جانے کتنے لاچار اور مجبور لوگ روزانہ ان فلاحی اداروں کے دروازوں پہ اپنی رہی سہی عزت بھی گنوا جاتے ہونں گے۔ بات یہ ھے عام صدقات اور عطیات سے مدد کے لیے نماز روزے کی شرط کس اسلامی قانون کی رو سے روا ہے؟
کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہلبیت اطہار علیہم السلام کسی کی مدد سے پہلے اس سے کلمہ یا نماز پوچھتے یا شناختی کارڈ کی کاپی یا محلے کی مسجد کے امام صاحب کا تصدیق نامہ منگواتے تھے؟ مانا کہ مستحق کی تصدیق لازمی مگر غریبوں کی عزت نفس سے کھیلنا کہاں کا انصاف ھے۔ اللہ ھم سب کو ہدایت دے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn