Qalamkar Website Header Image

شعور کے خاکے

بچپن زندگی کا ایسا سنہری دور ہوتا ہے جس کے نقوش ان مٹ، ناقابل فراموش یادیں، والدین، بزرگوں کا ساتھ، اُن کی نصیحتیں ساری زندگی کام آتی ہیں اور کبھی نہیں بھولتیں۔ پیارے والدین نے ہماری تعلیم و تربیت پہ ہمیشہ بھرپور توجہ دی اور ہماری حفاظت کے جتنے اقدامات کر سکتے تھے کیے اچھے بُرے کی تمیز سکھائی، کبھی ڈانٹ کر، کبھی مار کر کبھی پیار سے سکھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہر خطرے سے بچایا۔ اسکول اور کالج میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا خواہ وہ تقریری مقابلے ہوں، بیت بازی، ڈرامہ یا پھر کھیل کا میدان ہو۔ ہماری کامیابیاں اُن کی مرہونِ مِنت رہیں ہم ماشاءاللہ سے اتنے بہن بھائی تھے مگر والدہ کی نگاہ ہمیشہ شیر کی نگاہ رہی اور کہیں بھی کوئی کمی نظر آئی تو ہماری خوب خبر لی۔ ہر کسی کو یہی محسوس ہوا کہ سب سے زیادہ مجھ سے پیار ہے۔

اتنے پیار اور حوصلہ افزائی کے باوجود ایک اصول ان کا یہ رہا کہ اپنے اسکول کالج کی حد تک ہر چیز میں حصہ لو مگر ہم کسی دوسرے شہر میں نہیں جانے دیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم بہن بھائی چھوٹے تھے تو امی ابو ہمیں کبھی بازار یا ایسی جگہ جہاں بہت زیادہ رش ہوتا کبھی لے کے نہیں جاتے تھے اور اگر کبھی ضد کرتے تو وہ کہتے کہ اتنے رش میں بچے گُم ہو جاتے ہیں اغوا کر لئے جاتے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے ہم نے بھی کبھی ضد نہ کی۔ کتابیں پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ ان سے دوستی کا رشتہ قائم ہو چکا تھا بچوں کا شاید ہی کوئی ایسا ناول یا رسالہ ہو جو نہ پڑھا ہو مگر طبعیت میں اتنی حساسیت تھی کہ جب کبھی بھی کوئی ایسی کہانی پڑھی یا سُنی جس میں کسی پہ ظلم ہوا یا کسی کی موت کا پڑھا۔ میں ہمیشہ روئی ہوں۔ آج بھی کوئی ایسا ڈرامہ یا ٹریجڈی سین دیکھ لوں تو اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکتی یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔ میرا یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ والدین بہتر سمجھتے ہیں کہ بچوں کو کیسے بچانا ہے اور ان سے بڑھ کر مضبوط حصار دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ ہم معاشرے کو بدلنے کی بھرپور کوشش تو کر سکتے ہیں اور ہمیشہ کرنی بھی چاہئیے لیکن آپ اچانک سب کو بدل نہیں سکتے مگر آپ کی اولاد آپ کے اختیار میں ہے ان کے معاملے میں آپ چاہے کسی پر بھی بھروسہ کریں مگر آپ کی طرح ان کا خیال اور حفاظت کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھئے:  جنت کے جوانوں کے سردار - امام حسینؑ

پچھلے ایک ہفتے سے معصوم زینب کے بارے میں وہ کچھ سنا پڑھا اور دیکھا۔ اس نے اہلِ دل کو تڑپا دیا انسانیت شرما گئی خوف و ہراس نے گھیر لیا جب بھی لکھنے کا ارادہ کیا رو کے قلم رکھ دیا کہ کیا لکھوں۔ بچی نے جو کچھ سہا اور برداشت کیا اس درد کو الفاظ میں نہیں بیان کیا جا سکتا بس تصور شرط ہے۔ بچی کی والدہ کا بیان ہے کہ زینب نے رمضان میں پورے سات سال کا ہونا تھا۔ وہ ڈاکٹر جس نے پوسٹ مارٹم کیا اس کا بیان ہے کہ بچی کی حالت ایسی تھی کہ میں لرز گئی میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں قصور میں رہنے والے مختلف خاندانوں کا بیان بھی سنا جن کے بچے زیادتی کا شکار ہوئے اور اُن کو ڈرا دھمکا کے خاموش کرا دیا گیا اور مجرم دندناتے رہے حکومت کی مجرمانہ خاموشی کے ساۓ تلے۔ آخر کب ان معصوم بچوں کو انصاف ملے گا؟

حالیہ بلاگ پوسٹس