یوں تو مکار اور عیار لوگ کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ کسی بھی ایشو پر دوسروں کو ساتھ لیکر چلنا انکی فطرت میں نہیں ہوتا۔ ایسی ہی مثال تحریک انصاف کی ہے جو ماڈل ٹاؤن قتل کیس اور زینب قتل کیس پر بیان بازی تو بہت زور و شور سے کر رہے تھے لیکن جب اس ایشو پر احتجاج کا آغاز ہوا تو تحریک انصاف نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔
پہلے تو خان صاحب نے آصف علی زرداری صاحب کے ساتھ سٹیج پر بیٹھنے سے انکار کیا، یہ سوچے بنا کہ وہ مظلوموں کے ایشو پر احتجاج کرنے جا رہے ہیں نا کہ سیاست چمکانے۔ میڈیا پر انکی ٹیم اتحاد کے خلاف نظر آئی جس کا فائدہ فقط ن لیگ کو ہوا۔
پھر متحدہ اپوزیشن جلسے کے دوران ملی نغموں کی آڑ میں اپنے پارٹی ترانے بھی چلاتے رہے۔ جب اسٹیج پر ملی نغمہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں چل رہا تھا تو تحریک انصاف کو جانے کیا ہوا کہ ایسے پارٹی ترانے چلائے کہ جس میں عمران خان آئے گا وغیرہ جیسے جملے تھے جبکہ وہاں ساری پارٹیوں کے کارکنان موجود تھے جو شہباز شریف کے استعفے پر تو متفق تھے لیکن عمران خان کے آنے پر کسی صورت متفق نہیں تھے۔
تحریک انصاف جس طرح مکاریاں اپنے جلسوں میں کرتی ہے متحدہ اپوزیشن کے جلسے میں بھی کرتی نظر آئی۔ پوری جلسہ گاہ کی کرسیوں پر تحریک انصاف نے اپنے جھنڈے باندھ رکھے تھے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ساری پارٹیوں کا جلسہ ہے نا کہ صرف تحریک انصاف کا حالانکہ انکے کارکنان کی بہت کم تعداد وہاں موجود تھی۔ جب تحریک انصاف کے لوگوں سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو اس کا ذمہ دار پاکستان پیپلزپارٹی کو ٹھہرانا شروع کر دیا بجائے شرمندہ ہونے کے۔
حقیقت شاید یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ جلسوں میں جو نیت لیکر آتے ہیں اس کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ عوامی تحریک نے اسٹیج سے اعلان کیا اور اس پر سختی سے عمل بھی کروایا کہ خواتین کے ساتھ بدتمیزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس کے بعد انصافیوں کا جلسے میں کوئی کام نہیں رہ گیا تھا اور انکے نہ آنے کی وجہ بھی شاید یہی تھی۔
کہتے ہیں کہ بیوقوف کی دوستی مہنگی پڑتی ہے تو رہی سہی کسر عمران خان نے پارلیمنٹ پر لعنت کر کے پوری کردی حالانکہ وہ خود اس پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے کچھ ممبران خراب ہو سکتے ہیں لیکن اس کو وجہ بنا کر پوری پارلیمنٹ پر لعنت کرنا غلط بات ہے۔ تاریخ میں کچھ جرنیلوں کی وجہ سے بھی ملک اور فوج کا امیج خراب ہوا۔ کیا خان صاحب ایسی جرات وہاں بھی کریں گے یا صرف سول اداروں کے متعلق ہی ۔ ۔ ۔ ؟
آخر میں ایک بات واضح ہوئی کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی خان صاحب کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں صرف ایک قومی ایشو پر اکٹھا ہونا چاہتی تھیں لیکن خان صاحب نے ثابت کردیا کہ وہ سیاسی پختگی میں ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ انکے ساتھ کسی بھی معاملے پر اتحاد کیا جا سکے۔
پاکستان پیپلزپارٹی ایک نظریہ کا نام ہے اسے کسی بھی اسٹیبلشمنٹ یا فوجی آمر سے اتحاد کی ضرورت نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کارکنان کا کہنا ہے کہ بھٹو کے جیالے ن لیگ کے ظلم اور ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنا تین دہائیوں سے جانتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں کسی بوٹ چاٹ اور دھوکہ باز اتحادی کی ضرورت نہیں ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn