سخت اذیت ہے کہ وہی گھوم پھر کر ہر دو چار دن کے بعد کسی المیے کی خبر آجاتی ہے اور خونِ جگر اک طرف پرانے زخموں سے کُھرنڈ اُتار کر رِستا ہے تو دوسری جانب آنکھوں سے رواں ہو جاتا ہے۔ کیا بھلے دن تھے کہ جب "صبح خیزی” طلوعِ فجر کی اذاں تھی اور کیا برا وقت ہے کہ جب "سنسنی خیزی” رتجگوں کی لوری ہوِئی۔ ہم آپ لاکھ برا چاہیں کوئی نہ کوئی بری خبر ہمارا جی مکدّر کر ہی دے گی اور ہم جھنجھلائے جھنجھلائے پھریں گے۔ طبیعت کی جھنجھلاہٹ میں بھی عجیب مقناطیسی قوت ہوتی ہے۔ آس پاس موجود کسی دوسرے سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس کا سارا اثر بھی کھٹ سے آجُڑتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بات سے شروع ہوئی تکرار بڑھتے بڑھتے بسا اوقات ہاتھا پائی تک بھی جا پہنچتی ہے۔ جس کا نتیجہ کبھی بد مزگی تو کبھی المیے کی صورت نکلتا ہے۔
عدم برداشت نے ہمارے حوصلہ افزاء رویوں کی بدولت دیو مالائی کہانیوں کے اس ہٹّے کٹّے عفریت کا روپ دھار لیا ہے جس کی دہشت سے بستی کے لوگ اس حد تک مغلوب ہوتے ہیں کہ اس کے پیٹ اور غیض کی آگ ٹھنڈی کرنے کو خود ہی کوئی کمزور اور ناتواں شکار ڈھونڈ کر اس کے قدموں میں بلی چڑھا دیا کرتے تھے۔ ذرا غور کریں تو آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ ادھر ہم برداشت کے ہاتھوں شکست کھاتے ہیں ،ادھر اس کی جیت کا خراج اپنے اردگرد موجود لوگوں کا ناطقہ بند کر کے لیتے ہیں۔ معاشرہ ایسا شُتر بے مُہار موبائل مکتب بن چکا ہے کہ جسے دیکھو وہ دوسرے کو سبق سکھانے کو پھرتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ راستہ چیرتی یہ موبائل ہٹو بچو کے سائرن کی بجائے اپنی زد میں آنے والوں کی چیخوں اور کراہوں کی پھیلائی دہشت کے دم پر ساری اخلاقیات روندتی چلی جا رہی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn