Qalamkar Website Header Image

کتاب کلچر

کاغذ کا لمس انسانی لمس جیسا ہے۔ کاغذ کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر پڑھنے کا جو لطف ہے‘ وہ سلائیڈز شو دیکھنے میں کہاں! جدید میڈیا نے تحریر کو تصویر بنا دیا ہے اور لفظوں کی جگہ علامتوں نے لے لی ہے۔ انسان کے قدیم مسکنوں کی تحقیق کے دوران میں معلوم ہوا تھا کہ اوائلِ تہذیب میں انسان علامتوں کی زبان میں اپنا مافی الضمیر تحریر کرتا تھا۔ انسان نے علامتوں سے لفظ اور لفظ سے تحریر ایجاد کی۔ایسا لگتا ہے تہذیب دوبارہ جنگ اور جنگل کی طرف جارہی ہے۔ انسان کی پہلی اور آخری ایجاد ابھی تک پہیہ ہے۔ پہیہ گھومتا ہوا دوبارہ وہیں پر آتا ہے جہاں سے بلند ہونا شروع ہوتا ہے۔
کتاب سے دُوری نے ہمیں ایک دوسرے سے دُور کردیا ہے۔ کتاب مختلف اذہان کو ایک نکتے کے گرد اکٹھا کرنے کا باعث بنتی تھی۔ آج سوشل میڈیا ایک دوسرے کے ہمرکاب انسانوں کو مختلف سمتوں کا مسافر بنا رہا ہے۔ایک ہی کمرے میں بیٹھے لوگ مختلف ملکوں کے لوگوں سے ہم کلام ہورہے ہیں۔ ٹوٹ پھوٹ کا عمل تہذیبوں اور معاشروں سے ہوتا ہوااب گھروں کا رخ کر چکا ہے۔

سائینسی تحقیق بھی کہہ رہی ہیں کہ جب ہم کسی اسکرین کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمارے دماغ کا وہ حصہ متحرک ہوتا ہے جو جسمانی جبلتوں کا نگہبان ہے۔ اس کے برعکس کتاب اور کاغذ کی طرف توجہ دینے سے ہمارے دماغ کا وہ گوشہ مرتعش ہوتا ہے جو اعلیٰ خیالات اور افکار سے متعلق ہوتا ہے۔ الفاظ کو کتابی تحریر سے نکال کر ریڈیائی لہروں کی تصویر کی شکل دینے سے معلوم نہیں علم محفوظ ہوتا ہے یا نہیں ‘ لیکن ہم ایک دوسرے کیلئے غیر محفوظ ضرور ہو گئے ہیں۔ یہ ریڈیائی لہر کسی نیوکلئیر لہر کی طرح ہم سب کو کہیں بہا کر نہ لے جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کرہ ارض پر انسان تو موجود رہے لیکن انسانیت ناپید ہوجائے۔ یہ سانحہ کسی تیسری عالمی جنگ سے کم نہ ہوگا۔ الیکٹرونک میڈیا ہمارے بچوں کو ذہانت دے رہا ہے ‘ متانت نہیں۔ ذہین ہونے میں اور دانا ہونے میں وہی فرق ہے جو ایک روبوٹ اور انسان میں ہوتا ہے۔ روبوٹک ذہانت اپنی تجزئیاتی صلاحیت سے مالا مال ہونے کے باوجود اس سوچ سے یکسر جاہل ہوتی ہے کہ مہارتِ علمی کا استعمال کہاں نہیں کرنا چاہیے۔ بس ”چاہنا“ اور” چاہیے“ میں جو فرق ہے ‘ وہی فرق ذہانت اور دانائی میں ہے۔ انسان کو اپنا مستقبل خوش گوار کرنے کیلئے ذہانت سے زیادہ دانائی کی ضرورت ہے۔ ذہانت میں اَنا ہے ، اکڑفوں ہے ، بڑا بول ہے…. دانائی میں عجز ہے ، انکسار ہے، خاموشی ہے۔ دانائی جھکنا جانتی ہے۔

وہ گھر جس میں کتاب نہ ہو‘ اس قبرستان کی مانند ہے جس میں کوئی مزار نہ ہو۔ سنگ و خشت سے بنا ہوا مکان معنوی اعتبار سے زندگی سے محروم ایک قبرستان ہے لیکن کتابوں کی موجودگی وہاں کسی روحانیت کا اعلان ہے۔ روحانیت مادّیت کی لایعنیت سے نکل کر معنویت کی زندگی میں داخل ہونے کا نا ہے۔ اسی طرح قبرستان زندگی کا اختتامیہ ہے لیکن اسی قبرستان میں کسی قبر پر گنبد کی موجودگی ایک ایسی زندگی کا ابتدائیہ بیان کر تی ہے، جو فنا سے نکل کر بقا میں داخل ہوچکی ہے۔ جس گھر اور ادارے میں لائبریری نہ ہو، اس کی مقصدیت پر غور کر نا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں کتاب پہلے ہی نایاب تھی اور رہی سہی کسر احساسِ مروت کو کچل دینے والے ان آلات نے پوری کر دی ہے جنہیں عرف عام میں الیکٹرونک گیجیٹ کہتے ہیں۔ کتاب احساس کا دَر کھولتی ہے۔ جو نوجوان کتاب اٹھا لینا ہے وہ بندوق نہیں اٹھائے گا۔ بڑے بڑے انقلابات کتابوں کے تعاون سے برپا ہوئے ہیں۔ اہلِ مغرب ایجادات کی بھرمار کے باوجود کتاب سے دُور نہیں ہوئے کیونکہ وہاں ہر ایجاد صفر سے شروع ہوئی اور تدریج کے پالنے میں پل کربڑی ہوئی، اس لئے ٹھہراﺅ اور ارتقاء دونوں کے چلن سے دُور نہیں ہوئی۔ تدریج اور دھیرج کسی بھی تبدیلی کو پختگی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ہر ایجاد یکلخت امپورٹ ہو کر وارد ہوجاتی ہے ۔ ۔ ۔ اور اس کے بعد ہمارا رویہ اُس نَودولتیے سے مختلف نہیں ہوتا جو اچانک دولت مل جانے سے آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور اپنی روایت اور تہذیب کو دولتیاں مارتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  قرۃ العین طاہرہ - علی عباس

کتاب سے لگاﺅ دراصل علم سے لگاﺅ کی علامت ہے۔ نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی نہیں ‘ بلکہ ان کی گود میں ٹاپ کلاس کتابیں تھمانے کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ کتاب ‘ تہذیب سے آشنا کرے جبکہ لیپ ٹاپ صرف انٹرنیٹ تک رسائی کا ذریعہ ہے…. اور انٹرنیٹ تک رسائی عین ممکن ہے تہذیب تک نارسائی کا ذریعہ بن جائے ۔ مانا کہ لیپ ٹاپ لائبریریوں تک پہنچے کا بھی ذریعہ ہے لیکن ہر ذی شعور گواہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک مناسب تحریر تک پہنچنے کیلئے کتنی ہی نامناسب راہداریوں کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ انسانی شعور کو تہذیب کی شاہراہ پر پاؤں پاؤں چلنے کیلئے جس سہارے کی ضروت ہوتی ہے‘ وہ کتاب کی صورت میں میسر ہوتا ہے۔ ای بک شاید اصل بک کا متبادل نہیں ۔

اسکولوں اور کالجوں میں باقاعدہ ایک گھنٹہ لائیبریری کا پیریڈ ہونا چاہیے۔ کتاب ڈھونڈنے، کتاب پڑھنے اور اس میں قلم بند خیال کو اَخذ کرنے کی تربیت ہونی چاہیے۔ نئی آنے والی فلموں کی طرح نئی آنے والی کتابوں پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ کوئی اسکول اور کالج اس وقت تک منظور نہ ہونا چاہیے جب تک اس میں طالبعلموں کی تعداد کے برابر کتابوں کی ایک لائیریری موجود نہ ہو۔ ہر طالبعلم اپنے گھر سے ایک ایک کتاب بھی لے آئے تو اسکول کالج کی لائیبریری مکمل ہو جاتی ہے۔ وسائل کی کمی کا بہانہ نااہل لوگ کرتے ہیں۔ چند سال قبل میں نے اپنے کلینک کے نوٹس بورڈ پرایک چھوٹی سی تحریر چسپاں کی تھی ” اپنے گھر میں موجود زائد ادویات غریب مریضوں کیلئے عطیہ کریں“۔ دیکھتے ہی دیکھتے ادویات کے ڈھیر لگ گئے اور غریب مریضوں کو فراخدلی سے فری ادویات کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ یہ تحریر اور تحریک ہرچھوٹے بڑے کلینک پرشروع ہونی چاہیے۔ اسی طرز پر ہر پبلک جگہ پر کتابوں کی ایک الماری رکھ دی جائے اور نوٹس لگا دیا جائے کہ اپنے گھر کی زاید کتابیں ردّی میں نہ بیچیں بلکہ لائبریری کیلئے تحفہ دیں۔ یقین جانیے کچھ ہی عرصہ میں ہر گلی ، محلہ ، بازار اور اسٹیشن چھوٹی چھوٹی لائبریریوں سے سج جائے گا۔ ہر بڑے کام کا آغاز ایک چھوٹے سے قدم سے ہوتا ہے۔ بس ذرا زراندوزی پر قابو پا لیا جائے تو یہ دھرتی زرخیزی میں بے مثال ہے، اس دھرتی کے سپوت صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اِن صلاحیتوں کو چینلائز کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی مخلص راہبر میسر آجائے تو یہی قوم‘ قوموں کی راہبر بن جائے۔ بارش کا پہلا قطرہ بننے کی ضرورت ہے‘ ابرِ کرم برسنے کو تیار ہے۔

سب سے بہترین تحفہ‘ کتاب کا تحفہ ہے۔ کپڑوں اور پرفیوم کی جعلی بوتلوں کی بجائے کتابوں کوبطور تحفہ دینے کو رواج دیا جائے۔ کتاب کا تحفہ عام کیا جائے۔ تحائف کے تبادلے میں زیورات کے سیٹ کی جگہ کتابوں کے سیٹ لے لیں توہماراسویا ہوا نصیب جاگ اٹھے….تہذیب لَوٹ آئے …. اورلُوٹ مار کی جگہ ایثار اور اخوت کا چلن عام ہو جائے !!

لکھا ہوا ایک اَدھورا لفظ بھی پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔ اسے محفوظ ہوناچا ہیے اور اگلی نسل تک منتقل ہونا چاہیے تاکہ لفظ اور شعور اگلی نسل تک پہنچتے ہوئے مکمل ہو سکیں۔ کسی لکھے ہوئے لفظ کی توہین اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسے ردّی کے بھاؤ بیچ دیا جائے۔ کتاب لکھنا دراصل ایک ادارے کی بنیاد رکھنا ہے۔ مغرب میں مادّی ترقی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کے مشاہیر نے صدیاں قبل اداروں کی بنیادیں رکھیں۔ ادارہ بنانے کیلئے اپنی شخصی اَنا کی نفی درکار ہوتی ہے۔ وہ لوگ اُس زمانے میں اداروں اور درسگاہوں کی بنیادیں رکھ رہے تھے جب ہمارے ہاں شاہانِ وقت مغلیہ اَنا کا اظہارکرنے کیلئے اپنی انّاؤں، بیگموں اور ہرنوں کے نام پرسرخ اور سفید پتھروں سے محل اور یادگاریں تعمیر کرنے میں مصروف تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  حاصل ہے زمانے میں جنہیں نظمِ طبیعی

وہ دین جس کاحرف ِاوّل ”اقراء“ ہے ‘ اس کے ماننے والے پڑھنے لکھنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ ایسے ایسے ”صوفی منش“ لوگ بھی موجود ہیں جو دوسروں کے علم و دانش کو”قال ”اور اپنی جہالت و تعصب”حال“ قرار دیتے ہیں۔ ”علموں بس کریں او یار“ کا مطلب‘ یار لوگ بس یہی لیتے ہیں کہ علم کی ضرورت نہیں، حالانکہ جس ذی معرفت شخصیت نے یہ مصرع کہا ہے ‘ اس نے اپنے زمانے کے تمام مروجہ علوم حاصل کرنے کے بعد کہا ۔ اس قول سے مراد عمل کی ترغیب ہے‘ ناں کہ علم کی ضرورت سے بے نیاز ہونے کی ترکیب !! ہم بابا بلّھے شاہ ؒ کا کلام نہیں پڑھتے ،اس پر غور نہیں کرتے۔ صرف دھمال پر رقص کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ ہمیں کیا سنائیں گے؟ اہل ِ مغرب کے ہاں کتاب موجود ہوتی ہے اور صاحبِ کتاب پیوندِ خاک ہو جاتا ہے…. اس کے باوجود وہ کتاب کو تھام تھام کر عقل و شعور کی بہت سی منزلیں طے کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو بحمد للہ کتاب بھی موجود ہے اور صاحبِ کتاب بھی تہہِ خاک بالوجود موجود ہوتا ہے!! صاحبِ کتاب سے تعلق کا ایسا دعویٰ جس میں کتاب موجود نہ ہو‘ ایک جھوٹ اور تہمت کے سوا اور کیا ہے!! جس نے” کشف المحجوب “کا مطالعہ نہ کیا ہو‘ اسے کیا خبر حضرت علی ہجویریؒ کا مقام گنج بخش کیسے ہے۔ وہ کون سا خزانہ ہے جو آپ ؒ تقسیم کررہے ہیں۔

زمانہ طالب علمی میں میرے ایک خط کے جواب میں حضرت واصف علی واصف ؒ نے ایک ایسا بلیغ جملہ تحریر فرمایا ‘ جو کتاب اور تعلیم پر وارد جملہ اعتراضات کا شافی جواب ہے۔ آپ ؒ فرماتے ہیں” علم کے نام پر تعلیم سے فرار نہ ہونا چاہیے“۔ ظاہر ہے علم کا مرحلہ تعلیم کے بعد ہی آتا ہے….بجز اُن نورانی قلوب کے ‘ جن پر الہامی علوم بغیر کسی وسیلے کے جاری کر دیے گئے۔ ظاہر ہے ‘ ایسی ہستیاں استثناء ہوتی ہیں اور استثنیات کلیات نہیں۔ قاعدہ یہی ہے کہ پہلے تعلیم سے خود کو متصف کیا جائے اور پھر علم کی وادی میں اترنے کی بسم اللہ کی جائے۔ قواید و کلیات سے مستثنیٰ وہ ہستیاں کہ جن کو خضرِوقت نے اپنی نگاہِ فیض کیلئے چن لیا اور جذب کی گھنگھور گھٹاﺅں سے جنہیں باطنی علوم سے خوب خوب شرابور کردیا تھا ‘ اُنہوں نے بھی صحو کی وادی میں لوٹنے کے بعد درسگاہوں اور کلیات کی بنیادیں رکھیں ۔اور اِن میں علومِ ظاہر کی تعلیم شاملِ نصاب تھی۔

حالیہ بلاگ پوسٹس