Qalamkar Website Header Image

ستر سال کا بوڑھا پروفیسر قومی سلامتی کے لئے خطرہ تھا؟

ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی عمر ستر سال تھی۔ 69 سال کی عمر میں ان کو اکتوبر کے مہینے میں سندھ رینجرز نے کراچی پریس کلب سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ پریس کلب میں اردو بولنے والی کمیونٹی کے خلاف کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں ہونے والے ریاستی جبر اور تشدد اور ماورائے قانون اغواء و قتل پہ مذمتی پریس کانفرنس کرنے آئے تھے اور ان کی گرفتاری کے بعد ان پہ رینجرز نے جو مقدمات قائم کئے ان میں ملک کی سلامتی کے خلاف سازش کرنے، الطاف حسین کی ملک دشمنی پہ مبنی تقریر میں سہولت کار کے کردار ادا کرنے اور راء سے تعلقات اور ٹارگٹ کلرز سے روابط جیسے الزامات لگائے گئے۔ اور ان الزامات کو اکتوبر 2016ء سے اپریل 2017ء تک ان کو اپنی حراست میں رکھ کر بھی رینجرز ثابت نہ کرسکی اور نہ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ایسا کوئی مواد سامنے لاسکیں جس سے یہ ثابت ہوتا کہ یہ ستر سالہ بوڑھا کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث تھا۔

ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے پاس زندگی کے آخری دنوں میں سلور کلر کی پرانی لانسر تھی جس کی حالت ان کی مالی حالت کا پتا دیتی تھی اور ہمارے سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کے ادارے ہمیں کروڑوں اربوں ڈالر کی کہانیاں سنا رہے تھے۔ اور آخری مرتبہ جب میں ان سے ملا تھا تو واشن وئیر کی شرٹ اور بلیک کلر کی ایک سستے سے کپڑے کی پتلون میں ملبوس اور پرانے سے جوتے پہنے ہوئے اپنے استاد کی زندگی میں مجھے تو کسی مالیاتی انقلاب کے آثار نظر نہ آئے۔ انہوں نے تو تعلیم کو بھی کاروبار نہ بنایا تھا ورنہ کسی سیاست کے بغیر ہی وہ ارب پتی ہوجاتے۔

یہ بھی پڑھئے:  میں اس قبیلے کا آدمی ہوں

میں اس وقت انتہائی تکلیف میں مبتلا ہوں اور سخت رنج و غم کے ساتھ شدید غصے کی لہر کا شکار بھی ہوں اسی لئے کچھ زیادہ لکھنے سے قاصر ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ میں توازن سے ہٹ کر کوئی غیر معقول بات لکھوں۔لیکن یہ ضرور لکھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے کہیں زیادہ غیر مہذب، غیر محفوظ اور کہیں زیادہ ریاستی تشدد کا شکار بن چکا ہے اور اس وقت تو ایم آر ڈی جیسی تحریک موجود تھی ویسی آج کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ وہ الیاس گوٹھ /ریڑھی گوٹھ کراچی میں اپنی گاڑی کی پچھلی نشست پہ مردہ پائے گئے۔

ان کی موت انتہائی پراسرار انداز میں ہوئی ہے۔ اور شبہ بار بار ان نادیدہ قوتوں کی طرف جاتا ہے جو ازخود پاکستان کی مفروضہ نظریاتی سرحدوں کی محافظ بنی ہوئی ہیں اور جن کو لوگوں کو غائب کرنے، اغوا کرنے، اذیتیں دینے، مسخ شدہ لاشوں میں بدلنے میں ہی ملک کی سلامتی نظر آتی ہے اور اس ملک کا کوئی مجاز ادارہ ان کوروکنے میں ناکام نظر آتا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

منٹو بنام طارق جمیل

ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔ کئی بار میرے

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی صوفیانہ اساس پر مذہبی جنونیوں کی یلغار

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سندھ میں مذہبی تقدسات کے نام پر فتویٰ فتویٰ کھیلتے مذہبیوں کے سامنے ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے

مزید پڑھیں »

کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آئے تھے لیکن ایسا واقعی ہوتا دیکھ پہلی بار رہے ہیں۔ کرونا

مزید پڑھیں »