Qalamkar Website Header Image

ڈی این اے یا چار گواہ ! ریپ کیسے ثابت ہو؟

یہ 2006ء کی بات ہے، جامعۃ الکوثر اسلام آباد کی لائبریری میں ایک اہم علمی نشست منعقد ہوئی جس سے افغانستان سے تعلق رکھنے والے معروف مجتہد و فقیہ حضرت شیخ محمد آصف محسنی صاحب گفتگو فرما رہے تھے۔ ہم بھی شریک نشست تھے۔

ان سے اسلامی قانون شہادت پر سوال کرتے ہوئے پوچھا گیا کہ جدید سائنسی آلات اور طریقوں سے ثابت ہونے والے معاملات کی فقہی حیثیت کیا ہے، تو انہوں نے تفصیل سے استدلالی جواب دیا کہ جدید سائنسی آلات سے ثابت ہونے والی چیزیں ’’بینہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بینہ قطعی اور یقینی علم کا فائدہ دینے والی دلیل کو کہا جاتا ہے۔ ان کی طرح بہت سے دیگر فقہا اور علماء سائنسی طریقوں کو محکم دلیل و ثبوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔

ڈی این اے ٹیسٹ، سی سی ٹی وی، فنگر پرنٹس اور فرانزک رپورٹ نیز اسی طرح دسیوں جدید سائنسی طریقے و آلات انسانی زندگی کے تقریباََ تمام شعبہ جات و معاملات میں قطعی بینات کی حیثیت رکھتے ہیں اور اکثر ممالک کے قانون و انصاف کے نظام کا انحصار انہی سائنسی طریقوں پر ہوتا ہے اور یوں قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی میں یہ طریقے غیر معمولی حد تک کارگر ثابت ہوئے ہیں۔
جدید سائنسی آلات سے ثابت ہونے والی چیزیں ’’بینہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بینہ قطعی اور یقینی علم کا فائدہ دینے والی دلیل کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ بینے کی عدم موجودگی کی صورت میں ہی شواہد و قرائن کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  جنگ، عورتیں اور بنگلہ دیش کا قیام - عامر حسینی 

اس پہلو کو بیک جنبش سرے سے مسترد کر کے ہر ریپ اور درندگی کے بعد ’’چار بالغ، عاقل اور عادل مسلمان‘‘ کی ’’کالمیل فی المکحلہ‘‘ کی کیفیت والی گواہی پر اصرار کیا جائے تو شاید کوئی بھی درندہ صفت قانون و انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکے گا۔ بھلا پُرتشدد ریپ بھی کوئی پہلے بطور گواہ جامع الشرائط چار مسلمان گواہی کے لیے موقع پر کھڑے کروا کے ہی کرتا ہے؟
واضح رہے کہ غلطی اور نافہمی کا امکان سائنسی ثبوتوں میں نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ چار گواہوں کی ’’کالمیل فی المکحلہ‘‘ والی کیفیت پر بیک زبان گواہی میں غلطی اور شبہ کا امکان کئی گنا زیادہ پایا جاتا ہے۔ خوف، لالچ، شرمندگی وغیرہ جیسے عوارض کا اثر انداز ہونا الگ سے مسئلہ ہے۔

قانون شہادت میں سائنسی بینات کو مسترد کرنے کے باعث جرائم پیشہ عناصر کو ملنے والی قانونی چھوٹ سے اسلامی قانون ہی زیر سوال آتا ہے اور اس کی معاصر ضرورت و افادیت پر ہی سوال اٹھتا ہے۔
جن احباب کو ’’کالمیل فی المکحلہ‘‘ کا مطلب سمجھنے میں مشکل پیش آئے وہ قریب میں کسی عربی دان سے رہنمائی لیں۔ یہ عربی کا ایک محاورہ ہے جو فقہی کتابوں میں بہت بار آیا ہے۔
بزرگ فقیہ شیخ آصف محسنی صاحب کی مذکورہ رائے ہمیں آج سے بارہ سال قبل بھی قوی محسوس ہوئی تھی اور آج جب فیس بک پر بہت سے دانشور ان میں اختلاف کر رہے ہیں تو ہماری ایک دہائی پرانی یاد تازہ ہو گئی اور یوں آپ کے سامنے لکھ دیا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

منٹو بنام طارق جمیل

ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔ کئی بار میرے

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی صوفیانہ اساس پر مذہبی جنونیوں کی یلغار

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سندھ میں مذہبی تقدسات کے نام پر فتویٰ فتویٰ کھیلتے مذہبیوں کے سامنے ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے

مزید پڑھیں »

کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آئے تھے لیکن ایسا واقعی ہوتا دیکھ پہلی بار رہے ہیں۔ کرونا

مزید پڑھیں »