میں بحیثیت ماہر امراض بچگان یہ بتانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اعدادوشمار کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی یا ان کو ورغلا کر ان کے ساتھ جنسی عمل کرنے کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا عام طور پر سمجھی جاتی ہے. 47% واقعات میں خاندان کے افراد ملوث ہوتے ہیں. اگرچہ غیر شادی شدہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تر بچوں کے ساتھ اس فعل کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن شادی شدہ افراد اور بوڑھے لوگ بھی اس میں ملوث پائے جا سکتے ہیں.
بہت سے بچے زیادتی کے بعد چپ رہتے ہیں اور اس صورت میں ان کے ساتھ کئ بار یہ عمل دہرایا جا سکتا ہے. چپ رہنے کی وجوہات میں ان کو دھمکیوں کے ذریعے خوفزدہ کرنا، معاشرے میں زیادتی کا شکار لوگوں کا مذاق اڑایا جانا اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہونا شامل ہیں. کچھ بچے ماں باپ کو بتا بھی دیں تو معاشرے میں بدنامی یا خاندان کے اہم فرد کے ملوث ہونے کی وجہ سے اس پر کوئ ردعمل نہیں دیا جاتا اور معاملے کو دبا دیا جاتا ہے.
اگر ایک بچے کے رویے میں بظاہر کسی وجہ کے بغیر غیرمعمولی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو جنسی زیادتی یا جنسی طور پر ہراساں کیا جانا اس کی وجوہات ہو سکتی ہیں. ماں باپ سے دور رہنے والے بچے، جیسے مذہبی مدارس کے طلباء و طالبات، کم عمر مزدور یا گاڑیوں کی ورکشاپ کے چھوٹے، ہوسٹل یا ڈےکیر میں رہنے والے بچے، نچلے طبقے کے بچے، بھکاری بچے، ذہنی طور پر کمزور یا پسماندہ بچے، جسمانی طور پر معذور بچے یا ایسے بچے جنھیں گھریلو ملازمین جیسے آیا یا ڈرائیور وغیرہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، اس زیادتی کا نشانہ آسانی کے ساتھ بن سکتے ہیں.
جنسی زیادتی سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم اور پہلا قدم بچوں کی جنسی تعلیم ہے. بچوں کو جنسی اعضا کے بارے میں آگاہی دینا ماں باپ اور اساتذہ کا اولین فرض ہے. والدین اور اساتذہ کی طرف سے بچوں کو اعتماد ملنا چاہیے تاکہ وہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے قابل بن سکیں. جنسی تعلیم کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانا اور ہر عمر کے بچوں کو الگ الگ اس بارے میں تربیت دینا ریاست کا فرض ہے. سوشل میڈیا، اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کی مدد سے اس بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جانا چاہییں.
اگر کسی بچے کے ساتھ یہ واقعہ پیش آ جائے تو مجرم کی شناخت اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے نہ صرف اس بچے کا بلکہ بہت سے بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکتا ہے. ایسے مجرموں کو عبرتناک سزا دینا اور زیادتی کے شکار بچوں اور ان کے ماں باپ کو طبی معالجین اور ماہرین نفسیات کی مدد فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے.
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn