ہمارے ملک کی بہت سی دیواریں، سستے اخبارات اور ہر ہفتے شائع ہونے والے میگزین مردانہ کمزوری کے اشتہاروں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔اگر کیبل کا مقامی چینل دیکھیں تو کچھ حکیم حضرات مردانہ کمزوری کی ایسی ایسی ادویات اور مشورے دیتے ہیں کہ لگتا ہے پورے ملک میں صرف ایک ہی بیماری بچی ہے اور وہ ہے مردانہ کمزوری۔ جب کہ دوسری طرف بچے بھی دھڑا دھڑ پیدا ہو رہے ہیں اور غیرت کے نام پر عورتیں بھی قتل کی جا رہی ہیں۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ آخر ایسی کون سی آفت آتی ہے ایسا کون سا جنوں چڑھتا ہے کہ مدرسے کے طلباء اپنے ساتھی طلباء اور قاری حضرات کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہوتے۔ اگر یونیورسٹیوں کی بات کریں تو پڑھے لکھے پروفیسرز حضرات اپنی طالبات کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے پائے جاتے ہیں۔ہراسمنٹ تو بہت عام سی بات ہے۔ گھروں میں بچیاں اور عورتیں اپنے رشتے دار مرد حضرات کے ہاتھوں غیر محفوظ ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ عورت کا لباس قابل اعتراض تھا ٹائٹ کپڑے پہنے تھے تو آدمی شہوت کی طرف مائل ہو گیا۔ عورتیں ادائیں دکھاتی ہیں۔ مردوں کو بہکانے والی حرکتیں کرتی ہیں۔
چلیں صاحب ایک لمحے کے لیے یہ مان بھی لوں تو ذرا یہ بتائیے گا کہ یہ جو پانچ سات دس سال کی بچیوں کا ریپ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کون سی بے لباسی کی ہوتی ہے۔ ان معصوموں کو تو دنیا داری کی خبر بھی نہیں ہوتی اور ریپ جیسی اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کاش کوئی ان اذیت ناک لمحوں کو ایک منٹ کے لیے بھی محسوس کرے۔ اگر بچی بچ جائے تو ساری عمر معاشرے کے طعنوں اور ریپ کی اذیت سے نہیں نکل سکتی لیکن زیادہ تر تو جان سے ہی چلی جاتی ہیں۔
آخر یہ ہوس کب ختم ہوگی کیسے اس معاشرے کو سمجھاؤں کہ آپ کی چند لمحوں کی جنسی تسکین کسی کی جان امن اور سکون ساری زندگی کے لیے برباد کر دیتی ہے۔ کیسے جیتے ہوں گے وہ ماں باپ جن کے بچے اس اذیت کا شکار ہوئے اور جان سے گئے۔ ویسے تو ہر علاقے اور شہر میں ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن قصور میں ہونے والے واقعات اتنے تواتر سے ہو رہے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہم ایک انسان کی نظر سے کیوں نہیں دیکھتے عورت کو؟ گلی محلے میں ہاتھ لگانا ٹکرانا آوازیں کسنا اور پوری عورت کو بھرپور نظر سے دیکھنا عین عبادت سمجھتے ہیں۔ کیا غیرت صرف گھر کی عورت کے لیے ہوتی ہے؟ کیا کام کرنے والی باہر نکلنے والی اور ہر نظر آنے والی عورت آپ کے لیے بنی ہے؟
میں یہ ہر گز نہیں کہوں گی کہ اپنی ماں بہن کو جا کر چھیڑو کیوں کہ وہ بھی کہیں نا کہیں کسی نا کسی مرد کے ہاتھوں ذلیل ہو رہی ہوں گی۔ صاحب اگر آپ مرد ہیں تو سنئیے مردانگی دو چار بچیوں پانچ سات بچوں یا دس بارہ عورتوں کا ریپ کرنے اور اپنی ہوس مٹانے کا نام نہیں ہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ اپنے جسم اور اپنے آپ پر کنٹرول رہے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر عورت اپنی چادر درست کرنے کی فکر نا کرے۔ مردانگی تو یہ ہے کہ آپ کی موجودگی میں کسی کو اپنی عزت بچانے کے لالے نہ پڑیں۔ مردانگی تو یہ ہے کہ آپ کسی کے محافظ بنیں لٹیرے نہ بنیں۔
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn