یہ قصور کی بچی کے جنازے کی تصویر ہے کہ مجھ میں نہ اس بچی کا چہرہ دیکھنے کا حوصلہ ہے نہ ہی نام لکھنے کا۔ میں کبھی بھی اپنی قوم کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوئی لیکن زینب کے واقعے نے ہلا کر رکھا دیا ہے۔ جس قوم کو تواتر کیساتھ معصوم بچوں کی آہیں لگنا شروع ہو جائیں اسے اپنی الٹی گنتی شروع کر دینی چاہئے۔ اس قوم کی تباہی پر مورخین لکھیں گے کہ زینب، طیبہ، اعتزاز، عارفہ کریم، اے پی ایس طلباء جیسے بچوں نے ہی اسے قائم رکھا جتنا عرصہ ممکن ہو سکا۔
ناانصافی کا عالم تو یہ ہے کہ ایک شہر میں ایک سال کے اندر دس بچے اس زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور ایک بھی مجرم گرفتار نہیں ہوتا۔ بےحسی اتنی کہ یکے بعد دیگرے بچے کوڑے کے ڈھیر سے ملتے ہیں اور شہریوں کے کان پر جوں نہیں رینگتی، بالآخر جب وہ احتجاج کر ہی دیتے ہیں تو پولیس فائر کھول دیتی ہے اور مظاہرین زخمی و جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ بے شرمی کی انتہا تو یہ ہے کہ قصور میں پانچ ایم این اے دس ایم پی اے ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی بچی کے جنازے میں شرکت نہیں کرتا۔
آج ہم زینب پر رو رہے ہیں، اچھا ہے، رونا بنتا ہے کہ ایک مردہ پرست قوم اور کر ہی کیا سکتی ہے؟ جس قوم کے بچوں کا قاتل ریاست کا مہمان بنا بیٹھا ہو اور وہ قوم خاموش رہے، جس قوم کے قاتل دہشتگرد اسمبلیوں تک جانے کی تیاریاں کریں اور وہ خاموش رہے، جس قوم میں آئے روز ایک آدھ انسان مار دیا جائے اور وہ خاموش رہے، جس قوم کا کوئی ویزن نہ ہو، کوئی پلاننگ نہ ہو۔ جس قوم کی ترجیحات میں صرف اپنی ذات خاندان ہو اور دل کبھی ہم وطنوں کو مرتا دیکھ کر نہ جلے، جو آواز اٹھانا نہ جانتی ہو اس قوم کے پاس سوائے رونے کے اور کچھ نہیں رہ جاتا یہ تاریخ کا فیصلہ بھی ہے اور قدرت کا اصول بھی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn