Qalamkar Website Header Image

اندھا قانون

انصاف کی دیوی کا مجسمہ ایک ہاتھ میں ترازو اور آنکھوں پہ پٹی باندھے کھڑا ہے۔ اس کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ انصاف کے نام پر کس طرح کا کھلواڑ اس مملکت خداداد پاکستان میں کیا جارہا ہے آپ سب اس ملک کے باسی ہیں تو شاید اچھی طرح سے واقف ہوں گے کہ کس طرح ایک بے گناہ عمر قید کی سزا کاٹ کر عدالت سے سوال بھی نہیں کرسکتا کہ میری زندگی کے سنہری سال ناکردہ گناہ کی سزا کاٹنے میں گذر گئے اور کس طرح ایک قاتل وکٹری کا نشان بنا کر عدالتوں کو منہ چڑاتا ہوا رہا ہو جاتا ہے۔ کس طرح ایک ذمہ دار پولیس افسر کو سر راہ سب کے سامنے مارنے والے پر ضمانت پہ رہائی کے بعد پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتیں ہیں۔

اس مملکت خداداد میں کہیں کچھ غلط ضرور ہے کہیں کچھ ایسا ہے جو عام آدمی انصاف سے محروم اور سزا کا مستحق قرار پاتا ہےاور پیسے والا آرام سے چھوٹ جاتا ہے یا پھر اپنی سزا کے دن ہسپتال کے اے سی والے کمرے میں گزارتا ہے اس کو گھر کا کھانا بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ سب عام لوگ اور آس پاس والے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور خون کے گھونٹ پیتے ہیں کہ کچھ کر نہیں سکتے کیونکہ انصاف کا ترازو اندھے قانون کے ہاتھوں میں ہے۔ ایک اور قانون بھی چلتا ہے اسلامی قانون جس کے لیے شریعت کورٹس ہیں۔ انصاف اگر ایک عدالت سے نہ ملے تو دوسرے در کھول دیے جاتے ہیں اپنی مرضی کا فیصلہ لینا ہو تب بھی تو ان کا سہارا لیا جاتا ہے، کبھی قوانین میں ترمیم کی جاتی ہے ، ایسے ذرائع بھی اختیار کیے جاتے ہیں کہ انصاف ملنے میں سالوں سال لگ جاتے ہیں اور وقت کی دھول اس قسم کے کیسز کو دبا بھی سکتی ہے۔ پاکستان میں جرم کرنے والے کی سزا کے لیے کئی قسم کے قوانین ہیں، ایک طریقے میں سزا ہو جائے تو دوسرا طریقہ بچا لیتا ہے اور مجرم کو بری کر دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  بنگلہ دیش میں انسانیت کا قتل

سب سے زیادہ فائدہ اسلامی قانون دیت سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے، مقتول کے گھر والوں کو بہلا پھسلا کر، لالچ، زور زبردستی اور دھمکی سے اس کے لیے راضی کیا جاتا ہے اور قاتل باآسانی چھوٹ جاتا ہے۔ ایک ایسا مجرم جس نے معاشرے میں سرِ عام قتل کیا اور دہشت وغنڈہ گردی کی مثال قائم کی اس سے فائدہ اٹھا کر وکٹری نشان بناتا فخر سے رہا ہوجاتا ہے۔ اس کی بد ترین مثالیں ریمنڈ ڈیوس کیس اور شاہ زیب قتل کیس ہیں۔ بہت سے ایسے کیسز بھی ہوتے ہیں جن کا فیصلہ برسوں نہیں ہوتا اور جب فیصلہ ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ملزم تو بے گناہ تھا اب بتائیں اس نے جھوٹے الزام میں اپنے قیمتی سال کس طرح جیل کی سلاخوں کے پیچھےگزارے اور  اس کے پیچھے رہ جانے والے کس طرح معاشرے میں ناپسندیدہ اور قابل تعزیر ٹھہرے بلکہ اس الزام کی ذلت نے اصل میں مجرم بنا ڈالا اور وہ برائی کی طرف راغب ہوگئے۔ سالوں مقدمات عدالت میں لٹکتے رہتے ہیں اور فیصلے کے انتظار میں عمر عزیز کے سنہری سال گنوا بیٹھتے ہیں اور اگر واقعی مجرم ہیں تو سزا ملنے میں تاخیر ہوتی رہتی ہے۔

تیسرا طریقہ انصاف بھی اس پاکستان میں رائج ہے جو جرگہ  یا پنچائیت کا انصاف کہلاتا ہے۔ اس میں موقع پر مجرم کو سزا دی جاتی ہے یہ فیصلے بہت ہی شرمناک اور عجیب وغریب ہوتے ہیں، اگر کسی نے لڑکی کو بھگایا، بہکایا یا بھاگ کر شادی کی یا زیادتی کی تو سر عام جرمانہ، مخالف کی بہن، بیٹی کے ساتھ زیادتی، بازار میں ننگا کرکے گھمانا، ناک کاٹ دینا یہ وہ انصاف ہے جو پنچائیت یا جرگہ کرتا ہے، کاری میں بھی اسی طرح کاری کا الزام لگا کر جان سے مار دیا جاتا ہے، یہ ہے وہ انصاف جو بعد میں جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے اور پولیس تماشہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  عام پاکستانی-عنبرین سیٹھی

ایک عام آدمی کی سوچ محدود ہوتی ہے وہ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے سوچتا ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو مکمل اور درست انصاف فراہم کرے۔ کیا ایک نظام انصاف وعدلیہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتی کارروائی کو تیز کر کے مقدمات کے فیصلے جلد نہیں کیے جاسکتے۔ ہمیں عدالتی نظام میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ انصاف جلد فراہم کیا جاسکے۔ انصاف وہ جو نظر آئے، فیصلہ وہ جو روشن ہو اور سب کو دکھائی دے، جرم کرنے والے کو سزا ملے اور بے گناہ کو آزادی نصیب ہو، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر سڑکوں پر اور موقع پر انصاف کرنے کا طریقہ ایجاد ہوجائے گا اس سے معاشرے میں افراتفری اور لاقانونیت پھیلے گی، ہر ایک انصاف کا طبل بجا رہا ہوگا اور انارکی پھیلے گی۔ پاکستان میں قانون کی عمل داری اور عدالتی نظام کی مضبوطی ہی ہر برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے گی اس لیے اس طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس