Qalamkar Website Header Image

گلگت بلتستان کا پاکستان کے نام خط

میرے پیارے پاکستانی بھائیو!
السلام علیکم

بعد از سلام عرض کرتا ہوں کہ آپ غربت مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے ساتھ ملک میں موجودہ سیاسی عدم استحکام اور انارکی کی وجہ سے یقینا کوفت اور مشکل میں ہوں گے۔ آج کل میرے حالات بھی بہت برے ہیں۔ سب سے پہلے میں اپنا تعارف کرواتا چلوں کہ میں کون ہوں؟ میں وہ شاہین ہوں جو کےٹو کی چٹانوں میں بسیرا کرتا ہے۔ میں وہ بلبل ہوں جو فصل گل میں بام جہاں دیوسائی کے میدانوں میں پیار ومحبت اور امن و آشتی کا گیت گاتا ہوں میں وہ برف زادہ ہوں جو سیاچن اور کرگل کی وادیوں میں برف کی سفید چادر اوڑھ کر خاموشی سے زندگی گذارتا ہوں۔ میں شنگریلا ہوں۔ میں سدپارہ ہوں۔ میں نلتر ہوں میں ہنزہ ہوں۔ میں زمین پر جنت کا نظارہ ہوں۔ میں گلگت بلتستان ہوں۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے میری نہ کوئی شناخت ہے اور نہ میری کوئی پہچان اور نہ حیثیت۔ قومی اسمبلی میں کوئی نمائندگی ہے نہ سینٹ میں۔ غرض پاکستان کے تمام آئینی اداروں کے دروازے مجھ پر بند ہیں۔
آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ میرا نہ کوئی کارخانہ ہے نہ کوئی فیکٹری، میری کوئی صنعت ہے نہ حرفت اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر۔ میں صبر وشکر اور قناعت و کفایت سے بمشکل زندگی گذارتا ہوں اور اللہ بھی میری سفید پوشی کابھرم رکھتا ہے۔ میں گذشتہ دس دنوں سے دربدر پھر رہا ہوں۔ گلگت بلتستان کی سردی کا تو آپ کو پتہ ہی ہے۔ اس لئے آپ بھول کر بھی سردیوں میں یہاں تشریف نہیں لاتے۔ اس شدید کڑاکے کی سردی میں، میں جلسے میں ہوں۔ میں جلوس میں ہوں ۔ میں لانگ مارچ میں ہوں میں ہڑتال میں ہوں۔

یہ بھی پڑھئے:  دوباتیں

آخرکیوں؟
اس لئے کہ میرے کٹھ پتلی حکمران اپنے وفاقی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے میرے حلق سے روٹی کے دو نوالے بھی اترنے سے روک رہے ہیں۔ وہ مجھ ایسے فقیر پر ٹیکس کا نفاذ چاہتے ہیں۔ وہ مجھے بھوک اور فقر سے مارناچاہتے ہیں۔ آپ ہی بتا دیجیئے میں نیم خشک لکڑی سے انگیٹھی جلا کر لوڈشیڈنگ زدہ تاریک کمرے میں کمبل اوڑھ کر بیٹھا رہوں یا ان لقموں کے لئے ، زندگی اور سانس کے رشتے کے لئے اٹھ کر احتجاج کروں۔ یہ احتجاج میرا حق ہے۔ یہ جلوس میرا حق ہے یہ لانگ مارچ میرا حق ہے ۔ یہ ہڑتال ان بےحس حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ایک نااہل اور وزیر اعلی بجائے شرمندہ ہونے اور قوم سے معذرت کرنے کے مجھے ہی ایجنٹ، غدار اور فرقہ پرست کہتا ہے۔ آپ کو بھی معلوم ہے اور دھرتی ماں بھی گواہی دے گی کہ 1947ء سے لے کر اب تک میں دشمن کے مقابلے میں ہمیشہ سینہ تان کرکھڑا ہوں۔ 1965ء کا محاذ ہویا 1975ء کی جنگ، کرگل کا محاذ ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر میدان میں اس وطن کے تقدس کے لئے میں کٹ مرا ہوں۔ میں نے اپنی جان پر کھیل کر اس کی حرمت اور ناموس کادفاع کیا۔ سیاچن ، کرگل، گیاری، واہگہ، لیپہ اور چکوٹھی سیکٹر سے لے کر وانا، میر علی، خیبر، کرم، سوات اور مہمند ایجنسی تک ملک کا چپہ چپہ میری قربانی کی گواہی دے گا۔
پیارے پاکستانی بھائیو! آخر میں آپ سب کی مشکلات کی دوری اور ملک میں امن وامان کی دعا کے ساتھ یہی کہوں گا کہ میں نہ غدار ہوں نہ ایجنٹ ہوں اور نہ فرقہ پرست ۔ میں صرف اور صرف اپنا بنیادی اور آئینی حق مانگتا ہوں۔

یہ بھی پڑھئے:  میری خواہش (حاشیے) | عزیر راجو

فقط والسلام
آپ کی توجہ کاطالب آپ کا اپنا گلگت بلتستان۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

منٹو بنام طارق جمیل

ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔ کئی بار میرے

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی صوفیانہ اساس پر مذہبی جنونیوں کی یلغار

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سندھ میں مذہبی تقدسات کے نام پر فتویٰ فتویٰ کھیلتے مذہبیوں کے سامنے ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے

مزید پڑھیں »

کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آئے تھے لیکن ایسا واقعی ہوتا دیکھ پہلی بار رہے ہیں۔ کرونا

مزید پڑھیں »