سوشل میڈیا کا بھی کیا کہنا کہ جہاں دنیا کو ایک چھوٹے سے موبائل فون پر سمیٹ کر لائی ہے علم و فہم کے چراغ بھی اسی سوشل میڈیا کے ذریعے روشن ہیں دوستوں اور خاندان کے ساتھ بھی اسی سوشل میڈیا نے جوڑ رکھا ہے لیکن دوسری طرف اسی سوشل میڈیا پہ ایسے ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے گا کہ آپ کتنے بھی دلائل دیں وہ اپنی مرضی کے خلاف کوئی لفظ قبول نہیں کرتے.
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک جوان ملک قمرعباس اعوان نے سوشل میڈیا پہ قدم رکھا تو کچھ عرصے بعد ایک ویب سائٹ بنا کر نئے لکھنے والوں کو موقع فراہم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گئے۔ جب کبھی کوئی پوسٹ کرتے تو کمنٹس میں یار دوستوں کی محفل سجتی اور ملک جی دل ہی دل میں خوب خوش ہو کر اچھلتے کودتے رہتے. اکثر شادی کا رونا روتے رہتے تھے یار دوست سب دعا اور نیک تمنائیں دیتے اور ہم جیسے شادی شده لوگ جلد شادی کی بددعا دیتے کیونکہ ان کا اچھلنا کودنا ہمیں سینے پہ مونگ دلنا لگتا اور ذیشان نقوی نام کا دوست جگتیں مار مار کر ملک جی پہ دل کی بھڑاس نکالا کرتا۔
شاید کنوارے دوستوں کی دعا اتنی جلدی قبول نہ ہوئی ہو جتنی جلدی شادی شدگان کی بددعا قبول ہوئی اور سوشل میڈیا پرکمپنی یعنی ملک قمر کی مشہوری کو دیکھتے ہوئے ان کی امی نے انہیں لگام ڈالنے کا سوچا، یہ حضرت تو شادی کرنے کویوں بھی تیار بیٹھے تھے بس امی کے پوچھنے کی دیر تھی انہوں نے فٹ شادی کے لئے ہاں کر دی اور منگنی ہو گئی۔ منگنی کے بعد ملک پہلے سے زیادہ شوخ بن گئے لیکن شادی شدگان صبر سے کام لیتے رہے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ بندر کے ناچ کا یہ موسم بہت مختصر ہے آگے ڈھولکی پر ناچ ناچ کر جو حال ہونا ہے تب پھر ہم پوسٹ پر اچھل کود کرکے کمنٹس کریں گے۔ شادی کی تیاریاں اور تقریبات تک ہنسی خوشی کے ساتھ پوسٹ پر پوسٹ کرتے رہے اور ہم دل میں حسرت لئے انتظار کرتے رہے . شادی ہوگئی تو ہنی مون کی تصاویر نے خوب مبتلائے حسد رکھا ان کے دوست ذیشان نقوی کمنٹ میں بہت خوب اور حوصلہ افزا لفظوں سے سواگت کرتے رہے لیکن ملک کو پتہ نہیں تھا کہ لڑوانے کے لئے پہلے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
شادی سے پہلے ملک قمر بھائی کی پوسٹس پر کمنٹس آتے توان کی باچھیں کھل جایا کرتیں اور ہر کمنٹ پہ دل کا مرغولہ یعنی ایموجی داغ دیتے لیکن شادی کے کچھ عرصے بعد حالات بدلنے لگے ایک روز ان کی پوسٹ پر بھابی نے اتنے سارے کمنٹس دیکھے تو پوچھا یہ سب فقط دوست ہیں لیکن آپ اتنا فری کیوں ہیں سب کے ساتھ؟ تکرار پہ تکرار اور مجبوراً ملک جی نے پوسٹ کی ترسیل کم کر دی اکا دکا پوسٹ کرتے مگر شادی اور میاں بیوی کے رشتے سے مختلف موضوعات پہ۔
ایک دن کچن سے صبح بخیر کی پوسٹ خوشگوار موڈ میں کی تو دوستوں نے جگتیں لگانا شروع کر دیں اور شادی شدگان نے پرانے حساب چکانے کے لئے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ملک جی کو علم نہیں تھا کہ بھابی لڑکی کے ایک جعلی اکاؤنٹ سے ایڈ ہیں سارے کمنٹس دیکھنے کے بعد نیم انڈا فرائی کچرے کے باکس میں پھینک کر غصے سے بولیں جاؤ اور اپنے دوستوں اور سہیلیوں کے ہاں انڈا فرائی کھاؤ۔
ملک نے اشاروں میں ایک پوسٹ کے ذریعے دکھڑا سنایا اور کمرے میں خالی پیٹ دوستوں سے ہمدردی کی امید لگا کر موبائل فون کے اسکرین پہ نگاہیں جمائے بیٹھ گئے. اب کمنٹس کیا آئے بس ملک کی خوب درگت بنائی گئی۔ ملک کمنٹ کے جواب کی بجائے خود سے بڑبڑا کر جواب دیتے۔ محترم حیدر جاوید سید صاحب نے لکھا ملک صاحب نہاری منگوائی ہے کھانا ہے تو آ جاؤ۔ ملک نے سرد آہ بھر کر کہا کاش ایسا ممکن ہوتا اب تو پاؤں میں جکڑ لیا گیا ہوں۔ ہماری استانی محترمہ ام رباب بہن نے لکھا پوسٹ کے زیر زبر اور پیش سے لگ رہا ہے کہ آپ کی طبیعت ناساز ہے اور محترمہ فرح بہن نے اندازاً شعر لکھا جو درست نشانے پر لگا
"ہائے وہ آوارگی کے دن اور
اب یہ پاؤں میں زنجیریں”
ملک نے کچن کی طرف تسلی کرنے کی خاطردیکھا کہ کہیں بیگم قریب تو نہیں اور بمشکل لب کھول کر آہستہ بڑبڑایا ” سب کو خبر ہو گئی کیا؟ اسی وقت بلال بھٹی نے لکھا خوش نصیب لوگ صبح صبح بیوی کے ہاتھوں آلو پراٹھے کھاتے ہی۔ ملک تو یوں بھی بھابھی کی ڈانٹ کھائے آگ بگولہ بیٹھے تھے بولے، بیگم کے فرائی پین سر پر اٹھا کر دے مارنے کا بھی الگ ہی مزا ہے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں اور ان کو آلو پراٹھے یاد آ رہے ہیں۔ جسمانی سے زیادہ نفسیاتی امراض کی ڈاکٹر رامش فاطمہ صاحبہ نے جلے کٹے لفظوں کے ساتھ جو سواگت کیا اس وقت ملک کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا اور ایک دوسری ڈاکٹر زری اشرف صاحبہ جو روز ملک کو بیٹا کہتی رہتی آج جب کمنٹ کیا "پتہ چلا بیٹا ؟ مزے کر مزے بیٹا”۔ اب اس بیٹے اور اس بیٹے کے فرق نے ملک کو مزید مایوس کیا۔ ذیشان جگتیں پہ جگتیں مار رہے تھے اور شادی شدگان کے ہنسی کے بڑے بڑے ایمو جی ملک کے سر پر ہتھوڑوں سے کم نہ تھے۔ ایک آئی ڈی پاپا کی گڑیا سے کمنٹ ہوا کاش ہمیں بھی یہ جھگڑے نصیب ہو جائیں۔ ملک صاحب نے زیر لب کہا آمین اور آمین کے ساتھ چہرے کے تاثرات بیان کرنے کے قابل نہیں۔
کوئی جگتیں مار رہا ہے تو کوئی دلاسہ دے رہا ہے ملک دلاسے اور نیک خواہشات کے کمنٹس پہ دل کا لائک دیتے تو اس کمنٹ کے جواب میں باقی دوست ایسا حشر کرتے کہ ملک دل کو فوراً لال چہرے سے بدل دیتے اور بڑبڑاتے کمینے دوست ہیں پیٹ خالی ہے اور بیوی ناراض ہے اور ان کو مزا آ رہا ہے۔ اسی وقت کوئی بنده پتہ نہیں کہاں سے کمنٹس میں آ ٹپکا۔ کمنٹ کے شروع میں دو درجن دل اور پھر ایک جملہ ” ایک بادشاہ تھا جن کے سات بیٹیاں تھیں بیٹا کوئی نہیں تھا” آگے پھر دو درجن مختلف شکلوں کے ایمو جی اور پھر جملہ ” ایک دن بادشاہ کی بیوی نے” آگے وہی دو درجن ٹیڑھے میڑھے ایمو جی اور آخر میں لکھا تھا مزید پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں ہمارے پوسٹس کو شیئر کریں اور مزید اسلامی کہانیوں کے لئے ہمارا پیج لائک کریں اور دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔ ملک نے پوری پوسٹ اٹھا کر پھینک دی اور اس کمنٹ والے کو جو بد دعائیں دی مجھے گاؤں کی ماسی یاد آگئی۔
ملک صاحب بہت خوبصورت اور محبت کرنے والے انسان تھے لیکن پھر ملک صاحب کی شادی ہو گئی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn