ناکامی بہت شاندار چیز ہے، اگر یہ اپنے اسباب جاننے پر مجبور کر دے اور اس کا میابی سے زیادہ تباہ کن اور مہلک (Lethal)چیزاور کوئی نہیں جو تکبر اور غرور کا باعث بن جائے ،عارف نے کہا !حالات تو انسان پر اُس کی اصل حقیقت کو آشکار کردیتے ہیں ،مگر ہم غور نہیں کرتے ،بقول شاعر
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنے، ہارے بھی توبازی مات نہیں
انسانی دماغ مختلف خلیوں (Neurons) سے مل کر بنا ہے ، یہ خلیے ایک آکائی (Unit) کی شکل میں مل کر کام کر تے ہیں ، ان خلیوں کے کام کرنے کا براہ راست تعلق ہماری سوچ سے ہوتا ہے، بعض اوقات انسان جو سوچتا ہے ، تقدیر کی طرف سے ہوبہو ویساہی ہوجاتا ہے ، تقدیر اور اُس وقت کی انسانی سوچ کا محور ایک ہی نقطے پر متفق پایا جاتا ہے فطرتی طور پر جب انسان خوش ہوتا ہے تو John Keats کی طرح A Thing of Beatuy is , Joy forever والا حساب ہوتا ہے ، دنیا پررونق نظرآتی ہے ، کائنات کی ہرشے آنکھوں کے لیے باعث راحت ہوتی ہے چرند پرند چہچہاتے نظر آتے ہیں، گل بادِصبا سے سرگوشیوں میں مصروف پائے جاتے ہیں، تارے آسمان سے اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں الغرض دل کی دنیا جب روشن ہوتوساراجگ روشن نظرآتا ہے لیکن جب کبھی انسان کی سوچ تقدیر کے شانہ بشانہ نہ چل سکے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے ، بجائے اس کے وہ سرتسلیم خم کرے مشیت ایزدی کے فیصلے کے آگے، وہ نظارے جو چند لمحے پہلے تک اس کی آنکھوں کا نور تھے وہی وبال جان بنتے ہوئے نظر آتے ہیں ، وہ صرف دنیا کو ہی نہیں، فطرت کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے آسمان کی رونقوں پر اضافہ کرنے والے تارے اب اسے بوجھ سامحسوس ہونا شرو ع ہوجاتے ہیں، بلبل کاگُل سے ملنا بھی اس کی آنکھوں کو ذرا برابرنہیں بھاتا، یہ سچ ہے کہ موسم وہی ہے جو انسان کے اندر موجود ہوتا ہے اسی اسیری میں زندگیاں گزر جاتی ہے مگر اسیر ی میں ذرابرابر بھی کمی واقع نہیں ہوتی
بقول جان ایلیا
علاج یہ ہے کہ مجبور کردیا جاؤں
وگرنہ یوں توکسی کی نہیں سنی میں نے
انسان حالات کی پیداوار نہیں مگر حالات انسان کی پیداوار ہوتے ہیں،جب کسی مشکل، پریشانی یامصیبت کاسامنا کرناپڑتا ہے تو انسانی رویے تین درجوں میں منقسم ہوجاتے ہیں ،پہلا درجہ ان لوگوں کا ہے جو بالکل بھی حالات کا سامنا نہیں کرنا چاہتے ، وہ اسی گھبراہٹ کے عالم میں ٹھیک کام کو بھی غلط کربیٹھتے ہیں، وہ دعا تو ضرور کرتے ہیں مگر ’’دوا‘‘ کا کوئی اہتمام نہیں کرپاتے، البتہ گلے شکوے ان کے ہاں وافرمقدار میں پائے جاتے ہیں اگر یہ گلے شکوے سارے شہر میں مفت بھی تقسیم کردئیے جائیں تو ان کے ہاں پھر بھی ان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی ،بقول بشیر بدر
زندگی تو نے مجھے قبرسے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
دوسرے مرحلے میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو مجبوراًدرپیش مشکل حالات کاسامنا کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، ان کے ہاں بھی ’’دوا‘‘کا عنصر تھوڑی مقدر میں ہی پایا جاتا ہے، انہیں باامر مجبوری حالات سے لڑنا پڑتا ہے ، ایسے افرا دحالات کے سامنے سینہ سپر تو ہوجاتے ہیں مگر بے دلی سے، البتہ گلے شکوے یہاں بھی بدرجہ اتم موجود رہتے ہیں ’’یہ سب مجھے کرنا پڑرہا ہے ‘‘کا نعرہ لگا کر فاتح بن جاتے ہیں،
تیسرا درجہ ان خوش نصیب لوگوں کا ہے جن کا یقین خدا بزرگ وبرتر کی ذات پر کامل ہوتا ہے، وہ شکوے شکاتیں کرتے نظر نہیں آتے ’’جو تیری چاہت ہے ‘‘پر یقین رکھتے ہوئے حالات کاخندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہیں اور خدا کی رحمت سے حالات کو شکست سے دوچار کردیتے ہیں ایسے لوگوں کی تعداد مگر آٹے میں نمک کے برابر ہے ، یہی لوگ دنیا و آخرت میں کامیاب پائے گئے ہیں، ہمارے لیے نبی پاک ؐکی زندگی مشکل راہ ہے جنہیں کفار نے تنگ کرنے میں کوئی کسر روانہ رکھی مگر آپ ؐ کی زبان سے کبھی ’اُف ‘کا لفظ جاری نہ ہوا، طائف کے مقام پرآپ ؐ کے بدن مبارک سے خون جاری ہوگیا مگر آپؐ نے جبرئیل ؑ سے فرمایا!انہیں کچھ نہ کہنا، یہ میرے مقام کو نہیں جانتے ، ہمارے ہاں ایمان کی کمزوری کہیں نہ کہیں ضرور موجود رہتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوپاتے یا دشواریوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے، انسان کی سوچ جیسی ہوتی ہے ویسے ہی کام سرانجام ہوتے نظر آتے ہیں، اچھی سوچ کا نتیجہ اچھے کام ہوتے ہیں اور بری سوچ کا نتیجہ برے کام ،اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو آزمائشوں سے دو چار کرتا ہے اور کیسے کیسے اُن کو پریشانیوں سے نکالتا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ، مسئلہ اس سوچ کا ہے جو حالات سے لڑنا سکھاتی ہے ، مشیت ایزدی پر سرتسلیم خم کر نے کا درس دیتی ہے ، دلوں سے خوف اور غرور کا خاتمہ کرتی ہے بلاشبہ سوچ سے ہی عمل وجود پاتا ہے بہادر آدمی حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہیں ورنہ مشکلات کا نام توصرف بزدلوں کی ڈکشنری میں پایا جاتا ہے ۔ بقول عدیم
مفاہمت نہ لکھا ،جبرنارواسے مجھے
میں سر بکف ہوں، لڑا دے کسی بلا سے مجھے
عارف نے کہا !حالات تو انسان پر اُس کی اصل حقیقت کو آشکار کردیتے ہیں ،مگر ہم غور نہیں کرتے،بقول شاعر
گرجیت گئے تو کیا کہنے، ہارے بھی توبازی مات نہیں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn