جانتے ہیں دنیا میں ایک ایسا خطہ بھی ہے، کچھ ایسے باسی بھی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں اپنا لو، خدا کے لیے ہمیں اپنا لو، لیکن ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ ان کے دریا استعمال ہو رہے ہیں۔ ان کا پانی استعمال ہو رہا ہے۔ ان کی معدنیات استعمال ہو رہی ہیں۔ ان کے پہاڑ استعمال ہو رہے ہیں۔ ان کے روٹ سی پیک کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ لیکن اس بے آئین خطے کے باشندوں کو ہر قسم کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ وہ خطہ جہاں دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے –ٹو ہے۔ جہاں دنیا کا بڑا دفاعی میدان ہے۔ جہاں سیاچن گلیشر ہے۔ جہاں قراقرام کے پہاڑی سلسلے ہیں۔ جن کو پاکستان پوری دنیا میں فخر کے ساتھ اپنے سوفٹ امیج کے طور دکھاتا ہے۔
1948 میں ہی وہاں کے راجا نے پاکستان سے الحاق کر لیا تھا۔ اس الحاق کے بعد وہاں کے باشندوں کو قوی امید تھی کہ انہیں جلد یا بدیر خطہ لاہور اور کراچی والے تمام حقوق حاصل ہو جائیں گے مگر ایک عرصے تک وہ خطہ ایف سی آر قانون کے زیر استعمال رہا پھر بھٹو صاحب آئے اور انہوں نے ایف سی آر قانون کا خاتمہ کیا اور گندم اور نمک پر سبسڈی دی۔
ایک طرف مملکت خداداد کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہتا ہے اور پاکستان اور انڈیا نے کشمیر کی خاطر کئی جنگیں لڑی ہیں مگر جو خطہ اس وقت مملکت کے پاس ہے وہ اپنے حقوق کی آواز کے لیے ایک بار پھر سڑکوں پر ہے۔ اس علاقے کے حقوق کا تعین اقوام عالم کی قرارداد کے مطابق ہے۔ جس کے حساب سے پاکستان اس علاقے کا صرف "کیئر ٹیکر ” ہے اور وہاں تب تک کئیر ٹیکر بن کر رہ سکتا ہے جب تک اس خطے کے باشندے خود اپنی قسمت کا فیصلہ نہیں کر لیتے۔ اس لحاظ سے وہاں کے تمام وسائل خواہ وہ معدنی ہوں، زمینی ہوں، یا دیگر مملکت وہاں کے لوگوں کی مرضی کے بغیر اور علاقے کی مکمل حیثیت طے کئے بغیر ان کا استعمال نہیں کر سکتا۔
جی بات ہو رہی ہے گلگت بلتستان کی، وہ مملکت ، جس کو 70 برس سے حقوق نہیں ملے۔ 70 برس سے یہ خطہ الحاق کی جنگ لڑ رہا ہے۔ دنیا کا واحد خطہ جو کہتا ہے ہمیں اپنا لو۔ جس کو نہ ووٹ کا حق ہے نہ اس کے نمائندے اسمبلی میں جا سکتے ہیں نہ اس کو سینٹ میں نمائندگی حاصل ہے۔ قومی اسمبلی میں کسی قسم کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے اس خطے کے مسائل سے دنیا عموماََ غافل ہی رہتی ہے کیوں کہ انٹرنیشنل میڈیا تو یہاں کے حالات بخوبی دکھاتا ہے مگر لوکل میڈیا نجانے کس مصلحت کا شکار ہے کبھی نہ احتجاج دکھا سکتا ہے نہ ہی درست رپورٹنگ کرسکتا ہے۔
ابھی حال ہی میں علاقے پر ٹیکس لگانے کا لوکل گورنمنٹ کی طرف سے اعلان کیا گیا یعنی نہ صرف کاروباری حضرات پر بلکہ گائے ، بھینس، زمینوں اور یہاں تک کہ مرغی بھی اس ٹیکس سے محفوظ نہیں ہوگی جس پر پہلی بار عوامی ایکشن کمیٹی، تاجر برادری اور پوری عوام وہاں کے مقامی علما کی سرکردگی میں کئی دنوں سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور ابھی سکردو کی ایک وسیع آبادی نے لانگ مارچ کی صورت میں گلگت کا رخ کیا ہے تاکہ وہ ٹیکسز کے خلاف اپنا مظاہرہ ریکارڈ کر سکیں۔
سوال یہ ہے یہ سارے لوگ سڑکوں پر کیوں ہیں۔؟ اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ لوگ ٹیکس کیوں نہیں دینا چاہتے۔؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں کی بیچاری عوام یہ تک کہتی ہے کہ بے شک ٹیکس لگاؤ لیکن پہلے ہمیں پاکستانی تسلیم کرو۔ ہمیں نیشنل اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دو۔ ہمیں این ایف سی ایورڈ میں حصہ دو۔ ایسی بات نہیں کہ یہاں کہ لوگ ٹیکس نہیں دے رہے یا دینا نہیں چاہتے۔۔پیپلز پارٹی کے ذولفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے یہاں سے ایف سی آر یعنی کالے قانون کا خاتمہ کیا ور یہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہی تھی جس نے اپنے دور میں 2012 میں پہلی دفعہ یہاں ٹیکس لگایا اور یہاں کے عوام ہر شے پر جی ایس ٹی اور موجودہ بینکوں والا ود ہولڈنگ ٹیکس بھی دے رہے ہیں لیکن گورنمنٹ چاہتی ہے کہ پانچ روپے کی آمدنی والے پر بھی پچاس روپے کا ٹیکس مزید لگایا جائے۔
ہم نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا۔ تاریخ بتاتی ہے جب آپ کسی قوم کو حد درجہ مضطرب کرتے ہیں حد درجہ کسی قوم کو دبایا جاتا ہے تو اپنی پوری قوت کا مظاہرہ ایسے کرتی ہےکہ وہ لاوے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اگر یہاں کے عوام حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہ ان کا حق ہے۔ اگر وہ سی پیک میں اپنے حصے کی بات کرتے ہیں تو وہ بھی ان کا حق ہے۔ اگر وہ این ایف سی ایوارڈ کی بات کرتے ہیں وہ ان کا حق ہے۔ ان کا حق ہے کہ وہاں ترقیاتی کام ہوں۔ وہاں روزگار عام ہو۔ وہاں سیاحت کی آمدنی لوکل گورنمنٹ کو ملے۔ وہاں انڈسٹریاں لگیں۔ وہاں حقیقی معنوں میں گورنمنٹ کی تشکیل نو ہو۔ انہیں یا تو مکمل صوبے کا درجہ دیا جائے یا پھر آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے اور اس سے پہلے جتنے ٹیکسز لگے ہیں ان کو فی الفور ختم کیا جائے جس میں ود ہولڈنگ ٹیکس اور جی ایس ٹی سر فہرست ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل کریں۔بنگلہ دیش، خود موجودہ بلوچستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک ایسے خطے کے باسی جو سب سے زیادہ محب الوطن ہیں۔ جو چودہ اگست مقامی تہوار سے بھی زیادہ جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں اگر ہر دفعہ ان کی حب الوطنی پر حملہ ہوگا تو اس کا یقیناََ ردعمل بھی آئے گا۔ وہاں کے حکومتی نمائندوں کو بھی چاہئیے کہ جعلی کاغذات دکھانے کی بجائے وہاں کے لوگوں سے مذاکرات کے عمل میں شریک ہوں چوں کہ وہاں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے لہذا یہ بھی دلیل نہیں دی جا سکتی کہ مرکز تعاون نہیں کرتا۔
اس وقت مائنس 10 سے اوپر کے درجہ حرارت میں وہاں کے لوگ دھرنا دے سکتے ہیں توپی ایم ایل (این ) گورنمنٹ کو جاگ جانا چاہئیے اور سوچنا چاہئیے کہ ہٹ دھرمی اور طاقت کے مظاہروں سے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا البتہ مسائل پیچیدہ ضرور ہو سکتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn