Qalamkar Website Header Image

حدیں جو تم کو قید لگتی ہیں

آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی ہی ہے کہ جو ہم اس میدان میں سرگرم ِ عمل ہیں ۔ آج قائد اعظم ؒ کی سالگرہ پر جہاں ہر کوئی انہیں اپنی اپنی بساط کے مطابق خراجِ عقیدت پیش کرنے میں مصروف ہے وہیں ہم نے بھی ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے ۔

قائد اعظمؒ وہ ہستی ہیں جن کے سامنے کوئی زیادہ دیر ٹک نہ سکتا تھا ۔ گفتگو میں کمال، سیرت با کمال، صورت میں یکتا ۔ یہ پاکستان بننا تھا اس لئے قائد اعظم ؒ کو اللہ نے حوصلہ اور ہمت عطا کی ۔ پاکستان بننے کے بعد اور اس سے پہلے قائد اعظم ؒ نے اپنی قوم کے لوگوں سےبہت خطاب کئے ، اور ان کے سبھی قول ایسے ہیں کہ اگر ہم انہیں اپنا لیں تو ہمارا آج جو حال ہے شاید وہ سنور جائے ۔جسے ہم یکسر بھلا چکے ہیں ۔ ایسا ہی ایک قول ان کا عورتوں کے بارے میں ہے ۔
"No Nation Can rise to the height of glory unless your women are side by side with you.”
کوئی قوم اس وقت تک ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکتی جب تک اس کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام نہیں کریں گی۔

کتنا اچھا پیغام ہے ۔ اگر ہم اس کو صحیح طرح سمجھ پاتے تو کیا ہی بات ہوتی لیکن افسوس ہم اس پیغام کی گہرائی کو سمجھ ہی نہیں پائے ۔ ہماری جتنی عقل تھی اتنا ہم نے اس بات کو سمجھا اور اپنایا اور نتیجہ یہ کہ ہم بس اتنی ہی ترقی کر پائے ۔ عورت کے مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کو ہم نے صرف اتنا سمجھا کہ وہ فیلڈ میں نکل کے مردوں کے ساتھ کام کرے ۔ میں ہر گز عورتوں کے فیلڈ میں کام کرنے کے خلاف نہیں ہوں ۔ جب ضرورت ہو عورت کو بھی گھر سے نکل کر مرد کے ساتھ کمانا پڑتا ہے اور ضروری نہیں وہ کمانے کے لئے نکلے وہ اپنے ملک کی ترقی کی خاطر بھی کوئی اقدام کر سکتی ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں، میں عورتوں کی آزادی کے خلاف بھی نہیں ہوں آزادی اچھی چیز ہے لیکن آزادی کا ٹائٹل سجا کر حدوں کو پھلانگ جانا کہاں کی عقل مندی ہے ۔

عورتوں کی آزادی کے حوالے سے مجھے ایک کہانی یاد آ جاتی ہے ۔
"بکریوں کا ایک ریوڑ تھا جس کا مالک انہیں اندر ہی بند رکھتا تھا کیونکہ جس علاقے میں وہ رہ رہے تھے وہاں بھیڑیوں کا بہت خطرہ تھا ۔بھیڑئیے باوجود کوشش کے ایک بھی بکری کو لقمہ نہیں بنا سکے تھے۔ ایک بار بھیڑیوں کو ترکیب سوجھی انہوں نے بکریوں کی آزادی کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دئیے ۔ یہ صورت حال بکریوں پر کھلی تو وہ بھی بضد ہو گئیں کہ بھیڑئیے ہماری آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں ہمیں بھی ان کا ساتھ دینا چاہیئے ، ان میں ایک بوڑھی بکری نے انہیں بہت سمجھایا کہ بھیڑئیے کبھی بھی تم لوگوں کی آزادی نہیں چاہتے وہ تو اس طرح تمہیں اپنا کھانا بنانا چاہتے ہیں ۔ لیکن جوان بکریاں بضد تھیں ایک کہنے لگی کہ تم تو بوڑھی ہو چکی ہو تمہیں کیا پتہ آج کل کے حالات کا ، تمہارا دور گیا جب ڈر ڈر کے جیتے تھے سب، اب تو بھیڑئیے بھی ہمارے حق میں ہیں ۔ سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی جب ان کا شور حد سے زیادہ بڑھا تو وہ گیٹ توڑ کر باہر نکل گئیں اور بھیڑیوں میں جا کر آزادی کے گیت گانے لگیں کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بھیڑیوں نے موقع پا کر بکریوں پر حملہ کر دیا اور آنِ واحد میں تمام بکریوں کا صفایا کر دیا ۔ بوڑھی بکری اندر بیٹھی یہ سب دیکھ کر آنسو بہاتی رہی اور بار بار کہتی رہی ۔”
"کہا تھا نا وہ تمہاری آزادی نہیں ، تم تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں۔”

یہ بھی پڑھئے:  بیٹی...!- سبطین نقوی امرہوی

یہی حال آج ہمارا ہے ۔ ہم بس آزادی چاہتی ہیں یہ دیکھے اور سوچے بغیر کہ ہماری آزادی کے لئے لڑنے والے ہمارے خیر خواہ ہیں یا ان کے بھیس میں بھیڑئیے ۔ معذرت کے ساتھ میں یہاں مردوں کو نشانہ نہیں بنا رہی ۔ ایک حقیقت ہے کسی کو انحراف ہو تو ان کا اپنا نظریہ ۔
میں قائد اعظم کے اس قول کو جس حد تک سمجھ سکی ہوں وہ کچھ یوں ہے ۔
"اللہ عزوجل نے ہماری امت کی عورتوں کو ایک بہت بڑی ذمہ داری سونپی ہے ۔ ایک ایسی نسل تیار کرنا جو ظاہری، باطنی برائیوں سے پاک ہو اور ایک عملی مسلمان کی حیثیت سے دنیا میں ابھر سکے ۔ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا صرف یہی تو نہیں کہ عورت گھر سے باہر جا کر مرد کے ساتھ مل کر گھر کی گاڑی چلائے بلکہ اس کا زیادہ وقت گھر پہ گزرنا چاہئے ۔ وہ گھر پر بچوں کو وقت دے ۔ گھر والوں کو وقت دے ،مردتپتی دھوپ ، اور خشک جاڑے میں دن بھر گھر سے باہر رہ کر گھر والوں کے لئے محنت کر کے کھانے ، رہنے اور ضروریات زندگی کا سامان کرے اور عورت کا فرض یہ ہے کہ وہ اس کے گھر کی دیکھ بھال کرے ، اس کے والدین سے محبت کرے ، اس کے بچوں کی اچھی تربیت کرے ، شوہر کے لئے اچھے کھانے بنائے وہ تھکا ہوا گھر واپس آئے تو محبت سے اس کی دن بھر کی باتیں سنے ، گھر میں کچھ تبدیلی کرنی ہے یا بچوں کی تربیت کے حوالے سے شوہر سے بات کرے مشورہ لے ۔ اس طرح بھی تو عورت مرد کے شانہ بشانہ ہی چل رہی ہے ۔ مرد کے ذمے اللہ نے گھر سے باہر کا کام لگایا ہے تو گھر کی ذمہ داری عورت کے سپرد کی ہے ۔ عورت کو اسلام نے وہ اعلیٰ مقام بخشا ہے کہ اسے آسمان سے اونچا کر دیا یہاں تک کہ جنت اس کے قدموں تلے رکھ دی ۔ اور آج کی نادان عورت جس حد کو قید سمجھتی ہے وہ قید تو اس کی حفاظت کرتی ہے ۔ اگر وہ اس گھر کو ہی قید سمجھنے کی بجائے اپنا آسمان سمجھے تو اس میں آزادی سے اڑ سکتی ہے مگر وہ اس گھر کو قید سمجھ کر باہر نکلنے کے لئے پر پھڑپھڑا رہی ہے اور جب باہر نکلتی ہے تو کوئی شکاری جو اس کی تاک میں ہوتا ہے اسے دبوچ لیتا ہے اور یوں اس خوبصورت چڑیا کا ہنستا بستا گھر بھونچال کی زد میں آ جاتا ہے ۔ "

یہ بھی پڑھئے:  بے معنی زندگی

حدیں جو تم کو قید لگتی ہیں، محافظ ہیں یہ تمہاری۔
میری اس تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت سب چھوڑ چھاڑ کر گھر میں بند ہو جائے ۔ وہ باہر نکلے تو بھی اپنی حدوں سے واقف رہے ۔ اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
"اے اللہ کے نبی ﷺ اپنی عورتوں سے کہو کہ جب وہ گھر وں سے نکلیں تو اپنے دوپٹے سینوں پر پھیلا لیں تاکہ پہچانی جا سکیں اور ستائی نہ جائیں ۔ ”
(سورۃ الاحزاب 150 آیت نمبر 59)
اللہ نے عورت کے گھر سے نکلنے پر پابندی نہیں لگائی لیکن ان کی بھلائی کے لئے ہی ایک راستہ بتا دیا کہ ان کی پہچان کیا ہو گی ۔ آج ہم آزادی کا مطلب ہی غلط سمجھ بیٹھے ہیں ۔ غرض یہ کہ اگر کوئی ہم سے ایسی بات کہے کہ خود کو ڈھانپ کر چلو ۔ پردہ کرو وغیرہ تو لوگ ایسے انسان کو دقیانوسی اور تنگ نظر کہنے لگتے ہیں ۔  اس میں قصور صرف حکومت کا ، اپوزیشن کا یا اعلیٰ عہدہ داران کا نہیں ہے اس میں قصور عام پاکستانی کا بھی ہے اور بہت زیادہ ہے ہماری سمجھ پر نئی تہذیب نے پردے ڈال دئیے ہیں ۔ ہم اپنے خودی کے مقام سے گر چکے ہیں ۔ جس عورت کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی آج عورت اسی جنت کی ہریالی کو روندتی اپنی آزادی کا جشن مناتی نظر آتی ہے۔قائد اعظم ؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا میری نظر میں اس سے اچھا طریقہ کوئی نہیں کہ ہم ان کی تعلیمات کو سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کریں۔ آخر میں اپنی بہنوں سے میں بس یہی کہنا چاہوں گی ۔

؎ بہت محتاط سا ردِ عمل رکھنا ہے دنیا میں
کبھی جرات بھی کرنی ہے، کبھی ڈرنا بھی ہے تم کو

حالیہ بلاگ پوسٹس