پابندی وقت عادت رہی۔ آج ایک تقریب میں ڈھائی بجے کے بلاوے پر پورے وقت پر پہنچ گئی۔ دو نہایت معقول صورت بزرگ تشریف فرما تھے۔ ان سے معلوم ہوا ابھی شرکاء کی آمد شروع ہوئی ہے اور میزبان بھی راستے میں ہیں۔ یہ حضرات زندگی کی کئی دہائیاں وطن عزیز سے دور گزار کر آئے تھے۔ یہاں کے بارے میں بہت کچھ بھول چکے تھے، اس لیے یہ بھی وقت پر پہنچ گئے تھے۔
کچھ ہی دیر گزری ایک صاحب جن سے اچھی صاحب سلامت ہے تشریف لے آئے تعارف کا مرحلہ طے ہونے کے بعد ناچیز سے ایک نوارد وطن نے سوال کیا ” آپ کیا کرتی ہیں محترمہ؟ "
اب مجھ ناچیزنے سوچا "میں کیا کرتی ہوں”۔ سوال بہت اہمیت کا حامل تھا ناچیز نے جو جواب دیا ملاحظہ کے لئے حاضر خدمت ہے اگر کہیں کمی رہ گئی ہو تو یہ سہواً ہے ارادتاً نہیں۔ جی میں کپڑے دھوتی ہوں، کھانا پکاتی ہوں، جھاڑو پونچھا لگاتی ہوں ، چونکہ خودغرض ہوں اس لئے صرف اپنے بچوں کو پڑھاتی ہوں۔ ٹیلی ویژن دیکھتی ہوں فارغ وقت میں کتابیں پڑھتی ہوں باغبانی کرتی ہوں۔ سوچا کچھ تفصیل بتاؤں کہ ہم سب کیا کرتے ہیں۔ ان پردیسیوں کے کام آئے گا اور ویسے بھی بتا دینا اچھا ہوتا ہے۔ اور غیبت، چغل خوری، بے ایمانی، چور بازاری، جھوٹ، حسد، ذخیرہ اندوزی، اور کچھ اضافہ سامعین میں ہوچکا تھا اور یہاں ناچیز کی شعلہ بیانی میں بھی۔ اور ہم سب بجلی چوری کرتے ہیں۔
جناب والا ! بھاری قرض لے کر معاف کراتے ہیں، ٹریفک کے اصولوں کی پابندی نہیں کرتے، غریب کی مدد نہیں کرتے، امیر کی خوشامد کرتے ہیں، محنت سے جی چراتے ہیں۔ جناب والا ! استاد کی عزت نہیں کرتے، غلط لوگوں کو منتخب کرتے ہیں، فرقوں میں بٹ چکے ہیں، برینڈ اسٹورز کی کلیرنس سیل میں دھکم پیل کرتے ہیں، قائد کے فرمودات بھول گئے ہیں، اقبال کا شاہین فراموش کردیا ہے۔ اچانک خیال آیا کہ کچھ بین الاقوامی معاملات پر بھی روشنی ڈالی جائے کہیں مہمان یہ نہ سمجھیں ہم نابلد ہیں ان سے۔
جناب والا! ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف مسلمان متحد نہیں حالانکہ ہم سب کو ایک سیسہ پلائی دیوار بن جانا چاہئیے۔ جناب والا!
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
اور اور اور کافی سیر حاصل گفتکو کے باوجود ابھی میں کیا کرتی ہوں؟ کا جواب مکمل نہیں ہوا تھا کہ میزبان صرف گھنٹہ بھر کی تاخیر سے تشریف لے آئے۔ مجبورا ً گفتگو ادھوری چھوڑنا پڑی۔ تقریب شروع ہو گئی کچھ دیر میں اعلان ہوا کہ دونوں معزز مہمان معذرت کے ساتھ تشریف لے جارہے تھے ایک کو اختلاج قلب اور دوسرے کو تبخیر معدہ کی شکایت ہوگئی اور وہ اپنے چراغوں کے گل ہونے سے پہلے اپنے پیاروں میں پہنچنا چاہتے ہیں۔ وہ تو خیر سے چلے گئے لیکن ہم دیر تک سوچا کئے کہ کیا اپنے تعارف میں اتنی صاف گوئی اور وہ بھی بدیس سے آئے ہوئے اجنبی مہمانوں کے سامنے ہماری مجبوری تھی یا سینے پر رکھی برسوں پرانی کسی سل کو ہٹانے کی اضطراری کوشش۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn