جب سے عمران خاں کو سپریم کورٹ سے پاکدامنی سند جاری ہوئی ہے اور حدیبیہ پیپرملز ریفرنس دوبارہ کھولنے کے لیے نیب کی اپیل مسترد ہوئی ہے ملک میں ایک طوفان برپا ہے، مسلم لیگ نواز کی جانب سے نیب کی اپیل مسترد کرنے پر اطمینان کا اظہار اور عمران خاں کو صادق و امین قرار دینے پر برہمی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جبکہ جہانگیر خان ترین کو تاحیات نااہل قراردینے کے فیصلے پر تحریک انصاف شور مچا رہی ہے کہ عدالت عظمی نے جہانگیر ترین کے خلاف تمام الزامات مسترد کردئیے ہیں اور انہیں محض تکنیکی بنیادوں پر نااہل قراردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک ہی روز تین درخواستوں کے فیصلے ایک ساتھ سنائے۔ ملک میں پچھلے چند سالوں سے اہم ترین مقدمات کی فیصلے سنانے کے لیے جمعہ مبارک کے دن کا انتخاب کیا جانے لگا ہے۔ سپریم کورٹ کے ان فیصلوں پر تنقید کرنے والے یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ یہ فیصلے سیاسی قوتوں کو بیلنس کرنے کے چکر میں صادر کئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تنقید کی شدت اور اس کے اثرات کی دھمک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار تک نے محسوس کی، جس کی نمایاں جھلک ان کی گزشتہ روز لاہور میں پاکستان بار کونسل کی تقریب سے ان کے خطاب کے لب و لہجہ سے واضح دکھائی دیتی ہے۔ گو کہ کچھ حلقے جناب چیف جسٹس کے خطاب کے بعض مندرجات کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ اپنے اس خطاب میں جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدلیہ پر کسی قسم کے دباؤ کی نفی کی اور اپنی صفائی میں یہاں تک کہا کہ وہ قسم اٹھانے کو تیار ہیں کہ ان فیصلوں کے لیے کسی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار نے اس حد تک کہا کہ ابھی کوئی دباؤ ڈالنے والا پیدا نہیں ہوا۔انہوں نے واضح کہا کہ اگر دباؤ ہوتا تو حدیبیہ کیس کا فیصلہ وہ نہ آتا جو آیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس امر کی بھی وضاحت کی کہ عدلیہ کسی گریٹر پلان کا حصہ نہیں، ہم نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی ہے۔جناب چیف جسٹس نے کہا کہ تنقید کرنا اور فیصلوں میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کرنا غلط نہیں لیکن ججز کی نیت میں شک کرنا صحیح نہیں۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ نے اپنے خطاب میں گاؤں کے اس نظام کی مثال پیش کی جس میں گاؤں کا ایک بابا ( جسے چیف جسٹس نے بابا رحمتا کا نام دیا ہے) گاؤں میں سب کے تنازعات کے تصفیے کرتا ہے اور بابا کا فیصلہ جس کے حق میں ہوتا ہے وہ خوش ہوتا ہے اور جس کے خلاف ہوتا ہے وہ بابا کو گالیاں نہیں دیتا۔ چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار نے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو بابا رحمتا قرار دیا اور کہا کہ اگر بابا کسی کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو اسے بابا کو گالیاں نہیں دینی چاہئیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ملک میں اور بھی بہت مسائل ہیں اور میں عمران خاں اور نواز شریف میں پھنس کر رہ گیا ہوں یہاں چیف جسٹس نے متعدد مثالیں بھی پیش کیں۔
چیف جسٹس کے اس خطاب کے بعد اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں بہت لے دے ہو رہی ہے ، کسی کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کو صفائیاں دینے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ کوئی کہتا پھرتا ہے کہ ججز تقریریں نہیں کرتے ان کے فیصلے بولتے ہیں، کوئی یہ استدلال لاتا ہے کہ چیف جسٹس نے قسم کھانے کی بات کر کے خود شک و شبہات کو جنم دیا ہے اور میڈیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اور یہ بحث ایک طویل عرصہ تک کے لیے جاری رہے گی۔ چیف جسٹس صاحب کی بات میں بہت وزن ہے کہ عدلیہ سیاسی معاملات میں پھنس کر رہ گئی ہے اور اس ملک کے بہت سارے مظلوم لوگ عدلیہ میں دربدر پھر رہے ہیں ان کی عمریں گل چلی ہیں۔ انصاف کے حصول میں خوار ہو رہے ہیں۔ یہاں ایک مثال پیش کی جا تی ہے کہ راولپنڈی کی ایک عدالت میں اداکارہ عتیقہ اوڈھو کے خلاف صرف 2 بوتل شراب کا کیس کئی سالوں سے زیر سماعت ہے، جس ملک کی عدالتیں محض دو بوتل شراب رکھنے کا مقدمہ کئی سال میں نہ نبٹا سکیں وہاں انصاف دینے کے دعوے بلا جواز نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسی دوچار نہیں ہزاروں کیس عدلیہ کی الماریوں میں پڑے دیمک کی خوراک بن رہے ہیں۔ چیف صاحب آپ کے بابا رحمتا جیسے ہی سیانے بابے کہہ گئے ہیں کہ جس معاشرے میں انصاف کا حصول مہنگا ہو اور دستیاب بھی نہ ہو تو وہ معاشرے نابود ہوجاتے ہیں۔ جناب چیف صاحب ! آپ کے پیارے چیف صاحبان بھی ایسی ہی باتیں کرتے رہے اپنا دل کھول کر عوام اور عدالتی نظام سے جڑے خواص کے روبرو رکھتے رہے ہیں لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کچھ نہ کیا اور اپنا رعب دبدبہ دکھا کے رخصت ہوگئے۔ اگر آپ واقعی محسوس کرتے ہیں کہ عوام خصوصا سائلین کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے تو سیاسی معاملات میں پھنسنے کے بجائے کروڑوں سائلین کے مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز رکھیں۔ خصوصا اپنی ماتحت عدلیہ جسے خیر سے اعلی عدلیہ عدلیہ تسلیم بھی نہیں کرتی اس پر دھیان دیں اور عتیقہ اوڈھو جیسے کیسز جلد نبٹانے کے لیے ماتحت عدلیہ کو پابند کریں اگر وہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی پاسداری نہ کریں تو انکی سالانہ کونفیڈنشنل رپورٹس روک لی جائیں بلکہ خراب لکھی جائیں تاکہ انہیں احساس ہو ۔ دوسرا عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کو بھی ایسے ریمارکس دینے سے منع کیا جائے جن سے عوام میں مقدمات کے فیصلوں کے متعلق منفی تاثر پیدا ہونے کا احتمال ہو۔ اس بات کا بھی انتظام کیا جائے کہ اعلی عدلیہ کے ججز فیصلوں میں ایسی نظیریں تحریر نہ فرمایا کریں جن کا مقدمات سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ میرا اشارہ پانامہ کیس کے فیصلے میں "گارڈ فادر” کے ذکر کی جانب ہے۔ باقی آپ جہاندیدہ شخصیت ہیں، معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں۔
جناب چیف جسٹس صاحب ! جب مضبوط ترین حثیت کے حامل اور اعلی عہدوں پر فائز افراد عوام کے سامنے اشک بہانے لگیں اور اپنی مجبوریاں اور بے بسی کا اظہار کریں تو وہ خود بے توقیر ہوجاتے ہیں عوام سے انکی عزت وقار اور خوف ختم ہوجاتا ہے جیسے اس ملک کے مطلق العنان آمر جنرل ضیاء الحق اپنے دور کے آخری مہینوں میں فوج کے کمانڈر اور ملک کے طاقتور صدر ہونے کے باوجود ٹیلی ویژن سکرین پر کرک کی ایک خاتون کے خط کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوا تو لوگوں نے سمجھ لیا کہ لوگوں میں خوف کی علامت آمر بے بس ہوگیا ہے، اس کے ماتحت ادارے اور افراد اب اس کے قابو میں نہیں رہے۔ تو کھیل ختم ہوگیا۔ ایسا وقت عدلیہ پر آنے سے قبل معاملات سنبھال لیجیے۔ بس یہی عرض کرنا تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn