29 نومبر، 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کرنے کے بعد 14 مئی، 1948ء کو ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے ملک کے قیام کا اعلان کیا۔ تاہم اس بات پہ آج تک عالمی تنازعہ رہا ہے کہ یروشلم اسرائیل کا مرکز ہے یا نہیں۔ 6 دسمبر 2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا ہے کہ ہم یروشلم کو اسرائیل کو دار الحکومت تسلیم کرتے ہیں اور وزارت خارجہ کو احکامات جاری کیے ہیں کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سےوہاں منتقل کردیا جائے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی پالیسیوں میں ناکام رہا ہے۔
ہم اپنے اس کالم میں امریکہ کی اس ناکامی کو واضح کریں گے۔ لبنان میں موجود حزب اللہ اور فلسطین میں موجود حماس دونوں اسرائیل کے خلاف مقاومتی و مزاحمتی جماعتیں ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو جنگی سٹریٹیجک سپلائی ایران کرتا ہے۔ ایران، شام کے راستہ سے لبنان سے جڑا ہوا ہے۔ شام کا موجودہ صدر بشار الاسد اس سارے معاملہ کا ایک شریک ہے اور اس کی تمام تر وفاداریاں ایران اور روس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ روس سے اس لیے کیونکہ وہ شام کا معاشی دوست ہے اور اس راستہ سے ہی اپنی تجارت کو انجام دیتا ہے۔ گو کہ اس دوران امریکہ بہادر، عرب ممالک کے ذریعہ بشارالاسد کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوششیں کرتا رہا لیکن وہ ان حیلہ سازوں کی چمک دمک سے مرعوب نہ ہوا۔ جب بشارالاسد عرب شہزادوں کے ہاتھ نہ آیا تو انہوں نے شام میں سیاسی بحران کھڑا کرنے کے لیے بشارالاسد کے خلاف عوامی بغاوت کو ترتیب دیا اور مسلح لشکر بنائے۔ ساتھ ہی روس کو معاشی بحران میں مبتلا کرنے، ایران کا لبنان میں مقاومتی بازو توڑنے اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک نیا سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے امریکہ نے داعش جیسے درندہ کو تخلیق کیا۔ اس درندے کی لگام امریکہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی اور اسے شام و عراق میں کھلا چھوڑ دیا۔ اب ایک طرف عربوں کے حمایت یافتہ باغی لشکر اور دوسری طرف امریکہ کے تخلیق کردہ داعشی لشکر دونوں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے لگے۔ یہ دونوں گروہ بعد میں آپس میں لڑنے مرنے لگے اور ان کے درمیان مزید کئی لشکر بن گئے۔ اس ساری آفات و بلیات سے نمٹنے کے لیے ایران میں درخشاں انقلابِ اسلامی کے فرزندان سامنے آئے۔ ہزاروں رضاکار جوانان ایرانی القدس بریگیڈ کے سالاروں جن میں قاسم سلیمانی کا نام سرفہرست ہے، کی قیادت میں شام و عراق میں داعش سے لڑنےکے لیے قمر بستہ ہوئے۔ حزب اللہ کے جوانان اس معرکہ میں صفِ اول کے سپاہی بنے۔ ادھر سے روس بھی شامی افواج کی مدد کو آپہنچا۔ عراق میں حشد الشعبی نامی رضاکار فورسز نے عراقی افواج کے ساتھ مل کر شہروں کو داعش سے خالی کرانا شروع کردیا۔ نومبر 2017 میں پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی نے رہبر معظم سید علی خامنہ ای کو لکھے جانے والے خط میں عراق میں داعش کے خاتمہ سے مطلع کیا۔ 21 نومبر 2017کو ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں عراق اور شام دونوں میں داعش کے خاتمہ کا اعلان کیا اور پوری امت اسلامیہ کو مبارک باد پیش کی۔
یہی وہ ناکامی ہے جس کا دکھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہے کہ جس لشکر کو اتنی خطیر رقم خرچ کرکے اسے تشکیل دیا، وہ مسلمانوں کی مدبرانہ سیاست سے تہہ و بالا کردیا گیا۔ اپنی ان ناکامیوں کا ازالہ کرنے اور امت مسلمہ کی خوشی کو دوبارہ غم میں بدلنے کے لیے اس نے ایسا قدم اٹھایا ہے کہ ہم یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دیتے ہیں۔ ٹرمپ بیوقوف کے اس بیان کے جواب میں رہبرِ امت اسلامی سید علی خامنہ ای نے درست کہا ہے کہ یہ بیان صرف کمزوری اور بے بسی کے سبب ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn