Qalamkar Website Header Image

کیموفلاج تکفیری فاشزم میں اعتدال پسندی کی تلاش – دوسرا حصہ

پابندی اور نئے ناموں کا اجراء
جنرل مشرف نے جنوری 2002ء میں جب سپاہ صحابہ پاکستان پہ پابندی عائد کی اور اس کی مرکزی صدر اعظم طارق سمیت ملک بھر میں مرکزی و صوبائی و مقامی عہدے داروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ملک بھر میں دفاتر سیل کردئے گئے۔

ملت اسلامیہ پاکستان سے اہلسنت والجماعت تک
اکتوبر 2002ء میں جنرل مشرف نے عام انتخابات کرائے تو اس زمانے میں مولانا اعظم طارق نے جیل سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ان کے ساتھ ساتھ پشاور سے حکیم ابراہیم قاسمی پی ایف 2 سے صوبائی اسمبلی کا آزاد حیثیت سے الیکشن لڑکر اسمبلی میں پہنچے۔اعظم طارق تین آزاد امیدواروں میں شامل تھے۔اور اعظم طارق کا ووٹ مسلم لیگ ق کے وزیراعظم کے امیدوار کے لئے بڑی اہمیت کا حامل بن گیا۔انہوں نے یہ ووٹ ظفر اللہ جمالی کے حق میں استعمال کیا۔اس ووٹ نے ان کی رہائی کی راہ ہموار کی اور ضمانت پہ رہا ہوکر یہ باہر آگئے۔انھوں نے مشرف حکومت کی اس نرمی سے فائدہ اٹھایا اور حیرت انگیز طور پہ ملت اسلامیہ پاکستان کے نام سے ایک نئی پارٹی رجسٹرڈ ہوگئی۔سپاہ صحابہ کے اکثر کارکن جیلوں سے باہر آگئے اور زیرزمین کارکنوں کو بھی رہا کردیا گیا۔2003ء میں مولانا اعظم طارق کا قتل ہوگیا۔ان کی جگہ ملت اسلامیہ پاکستان کی صدارت محمد احمد لدھیانوی کے پاس آگئی اور 2003ء میں ہی ایک مرتبہ پھر اس پارٹی پہ پابندی لگ گئی۔اس پابندی کے بعد باوجود سپاہ صحابہ پاکستان کا سب سے بڑا اور مرکزی دھارا اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے تھا اور مشرف حکومت کے آخری دو سالوں میں اس نے اپنے آپ کو اہلسنت والجماعت پاکستان کے نام سے رجسٹرڈ کرالیا۔اور اس نام سے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے دفاتر پورے ملک میں کام کرنے لگے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی یہ جماعت رجسٹرڈ ہوئی۔اور پھر اس پہ بھی پابندی لگائی گئی لیکن اہلسنت والجماعت کے نام پہ اس پابندی کے بعد سے اس نام سے اس تنظیم نے کام کرنا بند نہ کیا۔

لچکدار حکمت عملی
یہاں پہ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ جب سپاہ صحابہ پاکستان کی قیادت محمد احمد لدھیانوی کے پاس آئی اور وہ ملت اسلامیہ پاکستان پارٹی اور اس کے بعد اہلسنت والجماعت کے سربراہ بنے تو انھوں نے نے سپاہ صحابہ پاکستان کے کام کو کسی ایک خاص تنظیم کے تحت کام کرنے کی حکمت عملی کو بہت حد تک ترک کردیا۔خاص طور پہ سیاسی میدان میں۔اہلسنت والجماعت کو اپنی مذہبی اور فکری سرگرمیوں کو ملک بھر میں اس نام سے جاری رکھنے میں نہ تو مشرف دور میں پیش آئی،نہ ہی پی پی پی کے دور میں اور نہ ہی مسلم لیگ نواز کے دور میں۔اسے سیاسی میدان میں مشکلات کا سامنا رہا۔محمد احمد لدھیانوی ،اورنگ زیب فاروقی اور دیگر رہنماؤں نے اس حوالے سے ایک لچکدار حکمت عملی اپنائی۔اور کراچی،اندرون سندھ، خیبر پختون خوا کے اندر اس نے پاکستان راہ حق نام سے پارٹی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرائی۔اور اس کے ساتھ ساتھ بطور آزاد امیدوار کے الیکشن لڑنے کی حکمت عملی کو جاری رکھا۔جبکہ محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب فاروقی کی قیادت میں اہلسنت والجماعت نے پہلے تو شیعہ کو کافر قرار دلوانے کی تحریک کو ایک سیاسی و سماجی تحریک کے طور پہ سامنے لانے اور اپنی پارٹی کے اندر موجود زیادہ ریڈیکل عناصر کو کیموفلاج کرنے پہ مجبور کیا۔اس روش کو اس تنظیم کے اندر سے اس وقت بڑے چیلنج کا سامنا ہوا جب ایک مبینہ ڈیل کے نتیجے میں ملک اسحاق اور اس کے ساتھی رہا ہوگئے اور انھوں نے اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان پہ اپنا حق فائق ہونے کا دعوی کیا۔

یہ بھی پڑھئے:  معیشت کی کساد بازاری کاذمہ دار کون؟ | احسان احمد ندوی (انڈیا) - قلم کار

ملک اسحاق اور محمد احمد لدھیانوی کے گروپوں کے درمیان تنظیم پہ کنٹرول کی لڑائی کو ختم کرانے کے لئے عالمی ختم نبوت تحریک کے بانی صدر مرحوم عبدالحفیظ مکّی نے ان کو اپنے پاس سعودی عرب بلایا اور وہاں افہام و تفہیم کرائی لیکن یہ تنازعہ برقرار رہا۔ملک اسحاق نے اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ کے اندر بڑا گروپ تشکیل دیا۔اور اس دوران ملک اسحاق گروپ کے ہاتھوں اہلسنت والجماعت کے پنجاب کے صدر شمس معاویہ کا قتل ہوگیا۔ملک اسحاق سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کے تکفیری مشن کو کیموفلاج کرنے کو تیار نہ تھے۔اور وہ داعش کے حوالے سے اور ٹی ٹی پی سمیت پاکستانی ریاست سے لڑنے والے لوگوں کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتے تھے۔اور اعلانیہ ان کی حمایت کررہے تھے۔ایک بار پھر وہ ساتھیوں سمیت گرفتار ہوئے اور ایک مبینہ پولیس مقابلے میں اپنے دو بیٹوں اور دست راست غلام رسول شاہ کے ہمراہ مارے گئے۔اور یہ ایک بار پھر اہلسنت والجماعت پہ محمد احمد لدھیانوی-اورنگ زیب فاروقی کے کنٹرول کی تصدیق ہوگئی۔اہلسنت والجماعت کو وفاق المدارس ، جمعیت علمائے اسلام (ف)اور جمعیت علمائے اسلام (س) جیسی مرکزی تنظیموں کی جانب سے کافی سرپرستی میسر آئی۔

اس دوران اہلسنت والجماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب فاروقی، ابراہیم قاسمی ، رمضان مینگل اور ان کے جملہ دوستوں سے اپنی سیاسی حکمت عملی کو لچک دار بنایا۔ابراہیم قاسمی پشاور کے پی کے وادی میں راہ حق پارٹی کے نام سے سرگرم ہیں۔ان کی جے یوآئی ایف کے ساتھ قربت بڑھی ہے اور وہ مسلم لیگ نواز کو بھی کھل کر سپورٹ کررہے ہیں۔جبکہ ہزارہ ڈویژن میں ایک طرف تو اورنگ زیب فاروقی، ابراہیم قاسمی 2018ء کے انتخابات میں اپنے امیدوار سامنے لانے، اور خود اورنگ زیب فاروقی ہری پور سے الیکشن لڑنے پہ پر تول رہے ہیں۔دوسری طرف 2008ء سے 2017ء تک انھوں نے اس علاقے میں اپنی تنظیم کی مقامی قیادت کو موقع محل کے مطابق مسلم لیگ نواز ، پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کی اجازت دی۔جبکہ پنجاب میں اس تنظیم نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اپنے اتحاد کو قائم رکھا ہوا ہے۔مسرور جھنگوی نے آزاد حیثیت سے الیکشن جیتا اور جے یوآئی ایف میں شامل ہوگئے۔محمد احمد لدھیانوی کی اپنی حکمت عملی جھنگ کے اندر بہت ہی پیچیدہ ہے۔ان کو اسد حیات برادر فیصل صالح حیات کی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں مدد حاصل رہی ہے۔چینوٹ میں یہ لالیوں کو سپورٹ کررہے ہیں۔جبکہ پنجاب بھر میں انہوں نے موقعہ محل کی مناسبت سے اپنی حکمت عملی ترتیب دی۔اکثر جگہوں پہ نواز ليگ کو سپورٹ کیا۔کہیں اس سے ہٹے بھی۔جیسے مظفرگڑھ میں جمشید دستی کو اعلانیہ سپورٹ کیا۔رمضان مینگل بلوچستان میں ایک غیر سیاسی روپ میں سامنے ہیں۔وہ وہاں پہ جمعیت کے اثر والے حلقوں میں جمعیت کو سپورٹ کررہے ہیں تو بلوچ قبائلی سرداروں جیسے موجودہ چیف منسٹر ثناء اللہ زھری ہے کی حمایت ہے اور ساتھ ساتھ وہاں پہ ان کو غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کا دست شفقت بھی حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  قوم، مذہب اور وطن - خورشید ندیم

سول سوسائٹی اور مین سٹریم میڈیا

پاکستان میں مشرف کے زمانے سے لیکر اب تک مین سٹریم میڈیا پہ انگریزی اور اردو دونوں سیکشن میں ایسے اینکرز، ٹاک شو کے ہوسٹ موجود ہیں جنھوں نے اپنے پروگراموں میں خاص طور پہ محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب فاروقی کو بہت زیادہ پروجیکٹ کیا اور ان کی تشہیر بھی خوب کی۔جبکہ انگریزی میڈیم کے چند بڑے نام جن میں سرفہرست نجم سیٹھی ہیں جن کے اردگرد کئی نمایاں لبرل نام جمع ہیں۔ان لوگوں نے دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر پروش پانے والے تکفیری فاشزم پہ بڑھتی ہوئی تنقید اور اہلسنت والجماعت کے کالعدم ہونے کے باوجود سرگرمیاں جاری رکھے جانے اور پھر سب سے بڑھ کر اس تنظیم کے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد اور اشتراک پہ سامنے آنے والی تنقید پہ کان دھرنے کی بجائے ، اس تکفیری فاشزم کے بڑے علمبردار محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب فاروقی کے کیموفلاج کو ہی ماڈریٹ دیوبندی ازم کے طور پہ پیش کرنا شروع کردیا۔

جاری ہے

پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

حالیہ بلاگ پوسٹس