محمود درویش نے کہا تھا:
میں گواہی دیتا ہوں کہ تیری حضوری میں بھی مقدر موت ہے
مگر تیرا غائب ہونا دو مرتبہ مرنے جیسا ہے
اور مجھے لگتا ہے کہ میں دو کی بجائے بار بار مرنے جیسی حالت سے گزر رہا ہوں
یہاں بارش ہے، سرد ہوا ہے اور پوری سڑک ویران پڑی ہے۔اور میں ایک بند دکان کے آگے بڑھے ہوئے شیڈ کے نیچے پناہ لئے کھڑا ہوں۔واپس گھر جانے کا ارادہ ہے لیکن میرے پاس چھاتہ نہیں ہے اور اس تیز بارش میں بھيگ کر نزلہ ،کھانسی میں مبتلا ہونے کا ارادہ نہیں ہے۔لیکن یہ موسم میرے اندر گھسے جارہا ہے اور اس موسم کی خاصیت تنہائی اور اداسی کا شدت سے احساس کرانا ہوتا ہے۔اور میں باہر ہونے والی بارش کی بوندوں کو لفظ بن کر اپنے اندر ٹپ ٹپ کرتے محسوس کررہا ہوں۔میرے پاس قلم،قرطاس نہیں ہے تو کیا ہوا۔یہ سمارٹ فون، ژونگ فور جی کا کنکشن ہے جو مجھے کم ازکم یہ سہولت فراہم کررہا ہے کہ اپنے اندر لفظوں کی اس ٹپ ٹپ کو اپنی ‘دیوار’ پہ رقم کرتا چلا جاؤں۔
ویسے اس دکان کے بڑھے ہوئے چھجے کے نیچے صرف میں نے ہی نہیں پناہ لی ہوئی،دو عدد گلی کے آوارہ کتے بھی یہاں میرے پاس آکر بیٹھ گئے ہیں اور اس چھجے کے عین نيچے اس کی سپورٹ میں لگے ایک لوہے کی چپٹی سلاخ کے کے اوپر ایک الو بھی بیٹھا ہوا اپنی آنکھوں کو چاروں طرف گھمارہا ہے۔اور آوارہ کتّے اور الّو بھی بالکل خاموش ہیں،فضا گھمبیر ہے۔ان کو اس گھمبیرتا کا احساس ہے تبھی تو یہ بھی خاموش ہیں۔
میں پاکباز،انتہائی روشن دماغ اور حب الوطنی سے سرشار لوگوں کی ایک مجلس میں شرکت کرکے واپس آرہا ہوں۔جہاں سب نے میری گفتگو سے مجھے پہچان لیا تھا۔سب میری طرف ایسے دیکھ رہے تھے جیسے انھوں نے میرے نطق و کلام سے مجھے پہچان لیا تھا۔یاد آیا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بھی تو یہی کہا تھا ‘ کلام کرو کہ پہچانے جاؤ۔’
‘کیا میں واقعی پہچان لیا گیا تھا وہاں؟’
ایک دور تھا جب ہم بولتے تھے تو اہل مجلس کو اچانک احساس ہوتا تھا کہ یہ تو ‘ففتھ کالمسٹ’ ہے۔اور آج اس اصطلاح کو بولنے والے تو ویسے ہی غائب ہوگئے ہیں لیکن مجھے شک ہے کہ ‘نئے اہل حرم’ اس کے معنی سے بھی نابلد ہیں۔مگر کچھ اور اصطلاحوں نے آج اس کی جگہ لے لی ہے۔
ہمارا قصور کیا ہے؟
ٹھہرو،اس کا جواب سوچنے سے پہلے میں سگریٹ سلگالوں۔پہلی والی راکھ بن گئی ہے۔اور فلٹر بھی تھوڑا جل گیا ہے۔اور تھوڑی سی تپش میرے ہونٹوں سے چھوگئی ہے جو پہلے سے ہی جل رہے ہیں۔
جواب مجھے سوجھ گیا ہے۔محمود درویش نے کہا تھا:
میں پرندوں کو پنجروں میں قید کرنا نہیں چاہتا
مجھے محمود درویش اس لئے کچھ زیادہ ہی ياد آرہا ہے،کیونکہ آج میں جہاں جہاں گیا وہاں لوگ ‘القدس، القدس’ کررہے تھے اور میں اس موقعہ پہ بھی جواب میں کبھی ‘کراچی۔۔۔۔یادگار شہدا۔۔۔۔عورتیں،،،،گھسیٹے جانا، گرفتاریاں۔۔۔۔۔ آواران۔۔۔مشکے اور خضدار ، ہاتون بی بی، ڈاکٹر شازیہ، کیپٹن حماد، آواران آرمی کیمپ، قلی کیمپ،عورتیں،بچے، بنگالی عورتوں کا ننگا پن، ان کی انہدام نہانی میں گھسی سنگینوں اور اس دوران ان کے پستانوں کی شدھی کا پروسس،ماڈل ٹاؤن، چودہ لاشیں،تنزیلہ، شازیہ کے چہروں پہ لگی گولیاں، تکلیف اور خوف سے کھلے منہ،نجانے کیا کیا بکتا رہا تھا۔۔۔۔۔ حضوری میں بھی موت اور غیبت میں بھی موت کیا یہی آگہی کہلاتی ہے؟
ایک صاحب بولے،’نہیں،یہ تو گمراہی اور جہالت کہلاتی ہے۔’
میں تھوڑا بزدل واقع ہوا ہوں۔میں نے گمراہی و جہالت کے تمغے سینے پہ سجانے میں ہی عافیت جانی اور اس سے آگے ‘بلاسفیمی، توہین’ کی کالک اپنے چہرے پہ ملنے سے ڈرگیا میں۔
یہ بارش تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔اور وہاں نوٹیفکشن پہ نوٹیفکشن آرہے ہیں کہ میری سیمنار میں ہدائیت کی دعا مانگنے والے صاحب کی روداد والی پوسٹ پہ لوگ ایکسپرشن بٹن پہ کلک کلک کئے جاتے ہیں۔کوئی اس پہ لائک کا ٹھپا لگارہا ہے تو کوئی اس پہ آنسو کی مہر ثبت کررہا ہے،کوئی دل نذر کررہا تو کوئی پوک کررہا ہے اور کوئی اینگری کلک کررہا ہے۔اب پتا نہیں مجھ پہ غصّہ ہے یا مجھے دعائے ہدایت دینے والے صاحب پہ
ایک خاکستری رنگ کے بالوں والا کتّا آکر میرے بوٹوں پہ اپنی ہانپتی زبان سے بوسے ثبت کررہا ہے۔ یہ کتّا اصحاف کہف والا تو ہے نہیں۔پھر پکّی بات ہے پکاّ جہنمی ہے۔میرے ساتھ میرا رفیق ہوگا۔یہ دم کیوں ہلارہا ہے۔یہ تو وفاداری کی علامت ہے۔تو کیا سارے دم ہلانے والے وفادار سگان عصر جہنم جانے والے ہیں؟
میں نے الو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا تو مجھے لگا وہ خاموشی سے گارہا ہے:
سورج ڈوبا ہے یارو ،دو گھونٹ نشے کے مارو، رستے بھلادو سارے سنسار کے
مطلبی ہوجا مطلبی ، دنیا کی سنتا ہے کیوں، خود کی بھی سن لے کبھی
جہنمی گیت ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور یہ کیسا مطلبی پن ہے جس میں خود اپنے اندر کی سننے کی تلقین کی جارہی ہوتی ہے۔سنسار کے غم بھلادینے کی کوشش کیا اندر جھانکنے سے کامیاب ہوجائے گی؟
میں یہاں بارش سے بچنے کے لئے اس چھجے میں دو آوارہ کتوں اور ایک الو کے ساتھ کھڑا ہوں اور ادھر یقینی بات ہے کہ میری بیوی سارا دن یونہی روٹین کے کام کرکے سوگئی ہوگی۔اور ہلکے ہلکے خراٹے اس کے کمرے میں گونج رہے ہوں گے اور ساتھ میرے تینوں بیٹے بھی سوگئے ہوں گے۔آج جب میں گھر سے نکل رہا تھا تو اس نے مجھے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیا کوئی ایسا سنڈے بھی آئے گا جب تمہیں کچھ نہیں کرنا ہوگا اور تم اپنے اوپر بھی تھوڑی سی توجہ دوگے۔شیو پھر بڑھ گئی ہے اور سر کے بال بھی کافی بڑھ گئے ہیں۔میں نے اسے پلٹ کر رومانوی مسکراہٹ سے دیکھا تھا تو بس وہ وہیں ڈھیر ہوگئی تھی۔یہ اوپر سے جتنی شانت لگتی تھی،اندر اس نے بھی ایک جہنم پالا ہوا ہے اور جب کبھی میں اس کے پاس سب چھوڑ چھاڑ کے بیٹھتا ہوں تو یہ اس جہنم کو باہر لے آتی اور میرے اندر جمی ہوئی برف کو پگھلاکر موم کردیتی ہے اور اپنی آنکھوں کے چراغ ایسے روشن کرتی ہے کہ میری آنکھیں چندھیا جاتی ہے۔اور مجھے لگتا ہے کہ میں اس کے اندر کے جہنم کی باہر کی راہداریوں میں ہی گم گشتہ سا پھرتا رہتا ہوں وادی ویل جہاں اس نے اپنے آپ کو چھپایا ہوا ہے وہاں تک نہیں جاپاتا ہوں۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں یہ جو میری بیوی بن کر میرے ساتھ ایک گھریلو سی عورت بن کر رہتی ہے ڈویلپمنٹ اکنامکس میں گولڈ میڈل لینے والی وہ عورت تو نہیں ہے جو مجھے وہابی مارکس وادی کے طعنے دیتے نہیں تھکتی تھی،یہ مجھ پہ پھونکیں مار مار کچھ پڑھنے والی اور اپنے باندھے امام ضامن کو بار بار چیک کرنے والی کوئی اور عورت ہے۔اکثر میری فیس بک وال پہ یہ میرے ساتھ بیٹھ کر سجنے والے میلے کو دیکھتی رہتی تھی۔اور جب کبھی بی بی سی والی،سیر بین کی ماہ پارہ صفدر کے لائک یا کمنٹ دیکھ کر یہ خوشی سے پاگل ہوجاتی تھی۔
‘عامی! یہ وہی ماہ پارہ صفدر ہے نا؟ اور میں کہتا ہوں،’ہاں! تو اس خوشی دیدنی ہوتی تھی۔اس کی آنکھیں چمکنے لگتی تھی۔
‘عامی! تم عاصمہ جی ! پہ غصّہ کیوں ہو؟ تمہاری آئیڈیل تھیں وہ کبھی،جب انھوں نے تمہیں بلایا تھا شکریہ ادا کرنے، تم مجھے اصرار کرکے لے گئے تھے،کتنے خوش تھے تم، ایک ایک کو بتاتے پھرتے تھے۔اب کیا ہوا ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ وہ ذرا خوش نہیں ہے۔’
‘کچھ بت شیشے کے بنے ہوتے ہیں،چھناک سے ٹوٹ جاتے ہیں،خوش میں بھی نہیں ہوتا،ان کو ٹوٹتے دیکھ کر۔’
یہ سنکر وہ ایک لمبی سی ہوں کہہ کر خاموش ہوجاتی ہے۔
‘ارے! یہ ارسطو کتنا پیارا بچہ ہے اور یہ لڑکی دھان پان سی اس کی ماں ہے۔اف اس کا باپ کہاں گم ہوگیا ہے؟’ اس کی تکلیف دیکھنے والی تھی جب اسے پتا چلا کہ اس دھان پان سی میشا کا شوہر جبری گمشدہ ہوگیا ہے۔ پھر میری وال پہ ‘گریہ ،ماتم’ اس سے دیکھا نا گیا اور اس نے آج کل میرے ساتھ بیٹھنا ترک کیا ہوا اور اپنا اکاؤنٹ بھی ڈی ایکٹویٹ کردیا ہے۔اور میں جب بھی باہر جاتا ہوں،اس کی آنکھوں سے خوف اور اندیشے صاف جھلک رہے ہوتے ہیں اور یہ بار بار شاوی،عاشو اور حاذق کو سینے سے لگاتی ہے اور بہانے بہانے سے ان کو میرے سر کردیتی ہے۔تاکہ وہ مجھے باہر نہ جانے دیں۔
ویسے میری ساری بہنیں،کزنیں،میری والدہ، والد اور میرے اردگرد سبھی رہنے والے مجھے عجیب عجیب نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں،ان کے لب بند مگر آنکھیں بول رہی ہوتی ہیں۔شکوہ کناں ہوتی ہیں،جیسے کہہ رہی ہوں:
‘یہ کیا کررہے ہو؟’
میں ان کو کیسے سمجھاؤں کہ ہمارے قبرستان ایسے لوگوں سے زیادہ بھرے ہوئے ہیں جو کچھ بھی نہیں کررہے تھے اور ٹارگٹ کرنے والی گولیاں ان کے تعاقب میں پھر بھی آئیں اور ایسے ہی کسی مجلس، میلاد کے جلوس میں اور یہاں تک بس کسی شاہراہ سے گزرتے ہوئے وہ سانس لیتے چلتے پھرتے بموں کے پھٹنے سے مرگئے اور وہ اب تک اپنے مارے جانے کا جواز تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کو سمجھ ہی نہیں آرہا۔کم ازکم بھگت سنگھ، حسن ناصر،نذیر عباسی،شہباز بھٹی،تاثیر،پاش،صبا دشتیاری،سبط جعفر،سید خرم زکی، مشعال کو ایسے سوال نہیں کرنے پڑے۔اور اس سے پیچھے جاؤں تو کیا ایسا سوال کرنے کی ضرورت میثم تمار کو کرنا پڑی تھی؟ نہیں نا۔ ‘ فزت’ کی صدا ایسے ہی نہیں نکلتی۔اس کے لئے پورا فریم ورک تیار کرنا پڑتا ہے۔اور میں تو ابھی تک ایسا کوئی بھی فریم ورک تیار ہی نہیں کرپایا،تبھی تو اس سردی کي بارش سے بچنے کے لئے اس چھجے کے نیچے کھڑا ہوکر لفظوں سے قبریں کھودے جارہا ہوں۔
اور غائب ہونے والے سب ضروری نہیں ہے کچھ کررہے تھے۔کیا مشکے سے پینتیس عورتیں اور بچے بھی کچھ ایسا کررہے تھے جس سے پادشاہی جاہ و جلال خطرے میں پڑگیا تھا؟ ارے نہیں۔یہ وہ عورتیں اور بچے ہیں جو اپنے گاؤں سے کبھی باہر نہیں گئے تھے مگر اگر کسی آرمی کیمپ میں پڑے ہیں تو اس کی وجہ محض یہ ہے ان میں ایک ایسے لوگوں کی جان اٹکی ہے جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ پہاڑوں پہ چلے گئے ہیں اور لڑرہے ہیں۔ان کا غرور اور ان کی بلند قامتی کو توڑنا مقصود ہے۔ ڈی ایچ لارنس نے کہا تھا ‘جنگ میں جتنے زخم جنگ سے باہر رہنے والوں کو لگتے ہیں،اتنے جنگ کرنے والوں کو نہیں لگتے۔’ اور ہمارے سماج میں عورتوں اور بچوں اور عام شہریوں کو لگنے والے زخم ان کے جنگ سے باہر ہونے کی وجہ سے لگ رہے ہیں۔
بارش تھمنے لگی ہے۔اور ہلکی سی پھوار میں بدلنے لگی۔مجھے اب گھر جانا چاہئیے۔ لیکن اپنا جرم تو میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں۔محمود درویش کا پھر سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ ‘حالۃ حصار’ ‘محاصرے جیسی حالت’ اس کی نظم کا آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے:.
یہاں
چٹانوں کی ڈھلوان پہ
غروب کے سامنے اور وقت کی توپ نالی کے اوپر
شکستہ سایوں کے باغات کے قرب میں
ہم وہی کرتے جو زندانی کرتے ہیں
وہ کرتے ہیں جنھیں ان کے کام سے معطل کردیا جاتا ہو
(مطلب) ہم امید کو پالتے ہیں،پروان چڑھاتے ہیں
ہمارے شہروں پہ ایک نیا سورج طلوع ہونے والا ہے
ہم بہت تھوڑی ذہانت کو سامنے لاتے ہیں
بے شک ہمیں فتح کی ساعت کا بہت قریب سے سامنا ہے
ہماری راتیں بھی تاریک نہیں ہیں یہ تو برستے بموں سے روشن ہیں
ہمارے دشمن ہم پہ نگران ہیں اور ہمارے دشمنوں نے ہماری زمین دوز پناہ گاہوں کو بھی شعلوں سے منور کررکھا ہے
یہاں اشعار ایوب کے بعد کوئی ایک بھی نہیں جو کسی کا انتظار کرتا ہو
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn