Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

مایوسی کی انتہا پر کھڑے نواز شریف

جناب نواز شریف کہتے ہیں وہ اپنے خلاف جاری احتساب اور ریفرنسز کو نہیں مانتے یہ سب ایک انتقامی کھیل کا حصہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی ارشاد کیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی رپورٹ کی اشاعت کے ساتھ دوسرے کمیشنوں کی رپورٹیں بھی شائع کی جانی چاہئے تھیں۔ انہیں (نواز شریف کو) یاد ہوگا کہ ابھی چند دن قبل راولپنڈی کے پنجاب ہاؤس میں سجی محفل درباریاں کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’کہتے ہیں ہمارے اثاثے آمدنی سے زیادہ ہیں‘ ہیں تو تمہیں کیا تکلیف ہے‘‘۔ یہ انداز تکلم تین بار وزیر اعظم رہنے والی شخصیت کا ہے۔ یعنی آمدنی سے زیادہ اثاثے ہوں تو سوال پوچھنا جرم ہے ان کے نزدیک۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک پرانی بات قند مکرر کے طور پر عرض کرتا ہوں 1979ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ان کے والد میاں شریف صاحب نے لگ بھگ چالیس لاکھ کے اثاثے ظاہر کئے تھے۔ 1984ء میں وہ (نواز شریف) مارشل لاء حکومت میں پنجاب کے وزیر خزانہ بنے تو ان کے خاندانی اثاثے کیا تھے۔ 1984ء سے 1999ء کے درمیانی 14برسوں کے دوران ان اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا؟ ان کی پارٹی اب بھی حکومت کی بلا شرکت غیرے (اتحادی تو درباری ہوتے ہیں) اقتدار کی مالک ہے۔ اسی قومی اسمبلی سے انہوں نے نا اہل شخص کی پارٹی سربراہی والا قانون منظور کروایا ہے۔ تھوڑی سی ہمت کرلیں وزیر اعظم عباسی کو ہدایت کریں کہ وہ دستور میں ترمیم کا ایک مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کروائیں کہ کسی بھی قسم کی کرپشن قانونی ہوگی اور کسی تاخیر کے بغیر اینٹی کرپشن کے سارے قوانین آئین سے نکال کر قومی اسمبلی کے مرکزی گٹر میں ڈلوادیں۔ البتہ یہ کہ کرپشن کو قانونی تحفظ ہونا چاہئے۔ سیاست کاروں کے علاوہ دوسرے ریاستی اداروں کو بھی موج میلے کی آزادی دی جانی چاہئے۔

عجیب بات یہ ہے کہ سیاست کو کاروبار بنانے والے سیاست کاروں کی اکثریت کرپشن کو خاندانی حق سمجھتی ہے اور کسی قسم کے قانونی اقدام پر ان کے ذہنوں سے شعلے برآمد ہوتے ہیں۔ عالی جناب فرماتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے پنجاب حکومت کے بنوائے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ دیگر کمیشنوں کی رپورٹس بھی شائع کی جانی چاہئے تھیں۔ بہت ادب کے ساتھ عرض کروں بندہ پرور آپ سوا چار سال وزیر اعظم رہے بحیثیت وزیر اعظم حکم جاری فرماتے کہ تمام جوڈیشل اور غیر جوڈیشل انکوائری کمیشنوں کی رپورٹ شائع کردی جائیں۔ کس میں مجال تھی آپ کے حکم سے سر تابی کرتا۔ کیا یاد دلانا ضروری ہے کہ ایک بار غالباً 2015ء میں آپ ہی سے سوال ہوا تھا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کب شائع ہوگی؟ آپ نے ارشاد فرمایا تھا۔ اس رپورٹ کی حساسیت اس کی اشاعت کے مانع ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے سیاست دان اور سیاست کار دونوں ایوان اقتدار سے باہر کے دنوں میں جو کہتے ہیں اقتدار کے دنوں میں ان پر عمل سے گریز کرتے ہیں اور پھر اقتدار سے نکلنے یا نکالے جانے کے بعد اپنی بے بسیوں کی کہانیاں سناتے پھرتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بنے جسٹس باقر نجفی جوڈیشل کمیشن نے اپنا کام ستمبر 2014ء میں مکمل کرلیا تھا۔ پنجاب حکومت اس رپورٹ کے وصول ہوتے ہی حکم امتناعی کے لئے ہائیکورٹ چلی گئی۔ کیا جناب نواز شریف سے دریافت کیاجاسکتا ہے کہ آخر منہاج القرآن پر لشکر کشی کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ اس حوالے سے متعدد وجوہات عرض کی جاسکتی ہیں مگر نون لیگ اور شریف خاندان کا کوا  ہمیشہ سفید ہی رہا۔ اب بھی وہ اس کے سفید ہونے پر ہی بضد ہیں۔ اصولی طور پر تو سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آنے کے بعد ان کے بھائی کو جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں کسی تاخیر کے بغیر مستعفی ہوجانا چاہئے تھا۔ مگر وہ کمال ڈھٹائی سے اب تک عہدے پر موجود ہیں بلکہ اپنے تنخواہ داروں کے ذریعے زہریلے پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ کئی برس قبل پیر صاحب پگاڑا سید علی مردان شاہ مرحوم نے کہا تھا ’’ نواز شریف آڑے وقت میں جن کے پاؤں پکڑتے ہیں وقت گزرنے پر انہی کی گردن دبوچ لیتے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے:  شہید ذوالفقار علی بھٹو

باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ نے ایک کام تو یہ کیا کہ ان سارے لوگوں کے خیالات پر سیاہی پھیر دی جو پچھلے کچھ عرصہ سے کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر قادری اپنے مقتول کارکنوں کی قیمت 5ارب روپے وصول کرچکے ہیں۔ البتہ نون لیگ کے چند جانبازوں کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کی اشاعت کا حکم بھی انہوں نے دلوایا ہے جنہوں نے نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ کروایا تھا۔ اچھا اگر ایسا ہے تو پھر پنجاب حکومت ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کیوں نہ گئی اور کیوں نجفی رپورٹ کے ساتھ اپنے ایک ملازم کی جائزہ رپورٹ شائع کروائی‘ کیا پنجاب حکومت کو بھی ’’اسی قوت نے حکم دیا تھا؟‘‘ ۔ بہر طور فی الوقت تو صورت یہ ہے کہ نواز شریف مایوسی کی انتہا پرکھڑے ہر شخص اور ادارے کو للکار رہے ہیں۔ ان کی سیاست کا یہ ڈھنگ نیا نہیں وہ مشکل حالات میں یہ رویہ اپناتے ہیں اور درمیانی راستہ نکلوا لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس بار ان کی خواہش (درمیانی راستے کی) پوری نہیں ہو رہی اس لئے وہ تابڑ توڑ حملوں میں مصروف ہیں لیکن کیا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے انہیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا؟۔

یہ بھی پڑھئے:  تلخیاں اور سچائیاں

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس