جمعتہ المبارک 2دسمبر کے سانحہ پشاور پر اگر یک سطری بات کی جائے تو فقط یہ ’’خواب آنکھوں میں ٹوٹے اور کرچیاں روح کو زخمی کرگئیں‘‘ بہت سارے سوالات بنتے ہیں۔ لیکن کیا سوال لازم ہیں؟ ساڑھے چار عشروں سے چند ماہ اوپر ہوگئے کوچہ صحافت میں ایسا حبس دیکھا اور برداشت نہیں کیا۔ اب تو کبھی کبھی یہ لگتا ہے کہ حبس ذات ہی ہمیں مار ڈالے گا۔ سرکار کے پاس کیا ہے چند وعدوں‘ تسلیوں‘ کھوکھلی یقین دہانیوں کے سوا؟ کچھ بھی نہیں۔ ہمارے بچے مر رہے ہیں۔ 80ہزار سے زائد پیاروں کو قبرستان میں دفنا آئے ،لوگوں کی آنکھوں میں اب آنسوؤں اور سوالوں کے سوا کیا رکھا ہے۔
ساعت بھر کے لئے ایک عشرہ پیچھے لئے چلتا ہوں ’’کچھ دوست خیر پور سندھ کے قریب کے ایک گوٹھ (گاؤں) میں جمع تھے۔ محفل دوستاں میں بحثیں عروج پرتھیں کہ یکا یک ہمارے ایک مرحوم دوست مولانا فیض شاہ نے تڑک کر کہا۔ یارو کبھی وقت نکال کر قبرستانوں کا چکر لگا لیا کرو تاکہ عبرت حاصل کرسکو۔ فقیر راحموں نے برجستہ جواب دیا۔ مولانا‘ قبرستان کا چکر لگانے کی کیا ضرورت ہے ہم قبرستان میں ہی تو رہتے ہیں اور سب کو اپنی اپنی فکر ہے‘‘۔ یقین کیجئے ہم سبھی ایک بڑے قبرستان میں آباد ہیں۔ سو سب کو اپنی اپنی فکر ہے۔ سماج میں زندگی کی لہر دوڑ رہی ہوتی تو سوال ہونٹوں پر مچل رہے ہوتے۔ ہم کس کے ہاتھ پر اپنے بچوں اور پیاروں کا لہو تلاش کریں۔ کس سے سوال کریں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ایک ستم اور ہے وہ یہ کہ اب سانحات بھی تقسیم ہونے لگے۔ یہ میرا سانحہ تھا وہ چپ رہا۔ اب اس کا سانحہ ہے خامشی مجھ پر واجب ہے۔ کوئی دروازہ ایسا نہیں دِکھ رہا جس پر فریاد کے لئے دستک دی جاسکے۔
کچھ عرصہ قبل ان کالموں میں شام اور عراق سے نکلنے والے داعش کے جنگجوؤں کی افغانستان آمد اور یہاں علاقائی سطح پر دہشت گردی میں مصروف چند تنظیموں کے ساتھ اس کے اتحاد و اشتراک کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کرتے ہوئے یہی عرض کیا تھا کہ داعش افغانستان میں موجود مختلف الخیال دہشت گرد تنظیموں سے اشتراک کر رہی ہے۔ ان کی کارروائیوں سے آئندہ مہینوں اور ہفتوں کے دوران افغانستان اور پاکستان متاثر ہوں گے۔ پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ کے دوران پاکستان میں ہوئی دہشت گردی کی چند بڑی وارداتوں کی ذمہ داریاں قبول کرنے والے وہی عناصر ہیں جن کی طرف متوجہ کیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے اصل خطرے کی طرف سے آنکھیں بند کرکے لکیر پیٹتے چلے جا رہے ہیں۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسی فضا بنا دی گئی اگر کوئی شخص کسی سانحہ کے بعد سوال اٹھاتا ہے کہ اس پر فتوؤں کی چاند ماری شروع ہو جاتی ہے یا چند ’’ذی فہم‘‘ درس حب الوطنی رٹوانے کے لئے میدان میں کود پڑتے ہیں۔ انہیں بہر طور پر یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ ہم سبھی کا ملک ہے۔ کسی خاندان‘ ادارے یا فرد کی جاگیر نہیں۔ مجھے معاف کیجئے گا مسئلہ حب الوطنی ہے نا کوئی اور بحران اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوال کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ عجیب قسم کی بے سر و پا ہیرو گیری کی چہل پہل کرکے سوالات پر مٹی ڈالنے کے فیشن کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
درجن بھر سے زیادہ قیمتی انسانی جانیں چلی گئیں اور تسلی یہ دی جا رہی ہے کہ شکر ہے بروقت اقدام سے نقصان کم ہوا۔ کیا مطلب۔ کیا نقصان 100یا اس سے اوپر جانوں کے ضیاع کو کہتے ہیں؟ یاد کیجئے ہمارے رسول اکرم رحمت دو عالمؐ نے فرد واحد کی جان کو کس قدر قیمتی قرار دیا اور خود قرآن عظیم الشان انسانی جان کی اہمیت بارے کیا ارشاد کرتا ہے۔ یکم دسمبر کے سانحہ پشاور نے بہت ساروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دئیے ہیں۔ دہشت گردوں نے سلمانی ٹوپی نہیں اوڑھ رکھی تھی وہ کیسے پشاور تک پہنچے اور پھر ہدف تک؟ یہ سوال ہے اور اس سے جڑے دوسرے سوالات ان سب کا جواب دیا جانا چاہئے۔یہاں ایک اور تلخ سوال پوچھنے کی جسارت بھی کر رہا ہوں۔ وہ کون لوگ یا شخص ہے جس نے دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کی اندرونی ویڈیو ان دہشت گرد وں کے افغانستان میں بیٹھے ساتھیوں تک پہنچائی۔ کیا دہشت گرد 4سے زیادہ تھے اور ایک دو بچ کر نکل گئے یا کوئی اندرونی سہولت کار؟ جس زخمی طالب علم کو حساس اداروں نے تحویل میں لیا اس کے بارے لوگ تفصیلات جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ یہاں ایک سوال اور ہے وہ یہ کہ کیا ہمارے ادارے اس امر سے لا علم تھے کہ بعض قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن اور افغان سرحدی علاقے میں موجود بعض محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کا رد عمل ہوسکتا ہے؟ اندازہ تھا تو پھر سرحد پار سے ہوئی دراندازی کو روکنے کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی گئی۔
بہت ادب سے درخواست ہے سوالات پر ناک چڑھانے کی ضرورت نہیں اس ملک کے لوگوں کی خون پسینے کی کمائی کے کھربوں روپے انسداد دہشت گردی کی مہموں پر صرف ہوئے اور دہشت گرد ہیں کہ ہمیشہ ہدف کے حصول میں کامیاب رہتے ہیں۔ بعد میں چند کہانیوں‘ طفل تسلیوں اور دعوئوں کی داستانوں کے سوا راکھ میں سے کچھ نہیں نکلتا۔ سانحہ پشاور پر ہر انسان دل گرفتہ ہے۔ حالات بہت تلخ ہیں۔ مداوا بہت ضروری ہے۔ دہشت گرد یقینا افغانستان میں ہوں گے ان کے سہولت کار آسمانوں میں تو نہیں رہتے ہیں اسی سماج میں آباد ہیں۔ ان سہولت کاروں کے خلاف کارروائی میں کیا امر مانع ہے؟ کیاہم امید کریں کہ سانحہ پشاور کی کوئی تحقیقاتی رپورٹ سامنے لائی جائے گی؟ ویسے تو سانحہ آرمی پبلک سکول کی نہ تو رپورٹ سامنے آئی اور نہ اس سانحہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب شہید طلباء کے والدین کو ملے۔ نا امیدی چونکہ اچھی بات نہیں اس لئے امید کا دامن نہیں چھوڑتے اور انتظار کرتے ہیں کہ کیا جواب ملتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn