Qalamkar Website Header Image

دہشت گردی کی روک تھام

شدت پسندی جيسے موضوع پہ لکھتے ہوئے کیفيت یہ ہے کہ”شدت کرب سے الفاظ بھی مر جاتے ہيں "

سوچتی ہوں کہ کتنی پياری ہستیاں کتنے خوبصورت لوگ اس کی نذر ہو گئے کہتے ہیں کہ وقت مرہم لگا دیتا ہے مگر آئے دن اُسی نوعیت کے واقعات و حادثات سے زخم بھرتے نہیں بلکہ غم کے احساس سے زخموں سے لہو رستا رہتا ہے بے گناہوں کا خون بہانے،گھر اُجاڑ‎نے، والوں کا آخر کون سا مذہب ہے ان کا عقيدہ کیا ہے؟ کس نے ان کی تربيت کی ہے اُن لا علم ملاؤں نے جنہیں اسلام کے الف کی خبر نہ تھی اور دين کی دال سے واقفیت نہ تھی ايسے فتوے صادر کر کے لوگوں کا قتل وخون کروايا کہ ساری دنيا اسلام سے نفرت کرنے لگی ۔ دنيا یا آخرت کی کس عدالت ميں یہ کھڑے ہونے کے لائق ہيں سسکتے بچوں کی آوازيں کراہتے بوڑھوں کی پکار فرياد کرتی مائيں اور بہنيں یتیم و بیوگان کی آہيں اور فریاديں کہاں جائيں گی۔ یہ ہيں درندوں کے خون آلود دانت۔۔۔ جنھيں آپ القاعدہ ، طالبان پکاريں يہ سب مظالم ملک ميں جاری ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری نوعيت کے فساد جس میں کرسيوں کی لڑائی دھينگا مشتی ، کرپشن کا ماحول گردوبيش کو ڈھانپے ہوئے ہے اور يہی چيز بھلائی اور بہتری کی جانب آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہےاس لئے کہ حرص و ہوس کی آندھی شرافت اور اخلاق کو اُڑا کے لے جاتی ہے

فتنوں کی پيدائش کا آغاز خواہشاتِ نفس کی پیروی اورايسے احکام ہوتے ہيں جن ميں قرآن کی مخالفت ہوتی ہے اور کچھ لوگ آئينِ حق کے خلاف لوگوں کی حمايت پر آمادہ ہو جاتے ہيں اگر باطل مکمل طور سے حق سے جدا ہو جائے تو متلاشئ حق پہ حق مخفی نہیں رہ سکتا مگر ہوتا يہ ہے کہ تھوڑ‎ا سا حق اور تھوڑا سا باطل لے کر مخلوط کر ليتے ہيں اور یہیں سے شيطان اپنے دوستوں پہ غالب آ جاتا ہے اسلام کا چہرہ وہ نہیں جو دکھايا گيا اسلام کاتعارف کراتے ہوئےسب سے پہلے يہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ مشرکوں کے خلاف اسلامی جہاد نہ تو کسی مادی غرض اور نہ ہی کسی اقتصادی تسلط کے پيشِ نظر تھا چونکہ اسلام نے توابتدا ہی سے بہت معقول طريقے سے مغروروں، ستمگروں کی مخالفت شروع کر دی تھی لہذا مخالف قوتيں متحد ہوکر اسلام کی نشرواشاعت ميں روڑے اٹکانے لگيں اور اس سلسلے ميں تمام قوتوں کو اسلام کے خلاف استعمال کرنے لگيں انتہا يہ ہے کہ اگر کوئی اسلام قبول کر ليتا تو بڑی بے دردی کے ساتھ اس کو شکنجے ميں کس ديتے تھے
اور جب مشرکين کا ظلم حد سے بڑھ گيا تو تب مسلمانوں کو حکم ديا گيا کہ اب تم دفاع کرو اگر ہم تاريخ کا جائزہ ليں تو ديکھتے ہيں کہ رسولِ خدا نے جتنے بھی غزوات کيےوہ اسلام کے دفاع ميں کيے اسلام نےجس جنگ کا آغاز کياوہ درحقيقت بشريت کی جنگِ آزادی ہے عقل کی خرافات اور توہم پرستی سے جنگ ہے يہ جنگ ہوا و ہوس سے دور ظلم و ستم سے الگ مادی امور سے بے نياز جنگ ہے روئے زمين پر فساد و تباہی کے خلاف جنگ ہے اسلام بشريت کی قدروقيمت بڑھانے اور عزت و سر بلندی حاصل کرنے کی جنگ کرتا ہے
دنيا کی نظر ميں جنگ کا مفہوم قتل کرنا گرفتار کرنا دشمن کو نابود کرنا دشمن کے ساتھ بے رحمی شقاوت کرنا ہے ليکن اسلام کے نزديک جنگ کا مفہوم گمراہی ظلم وستم تباہی و بربادی کو روکنا اور حق و صداقت کو زندہ کرنا اورعدالت کو رائج کرنے کا نام جنگ ہے ۔اسلام کا دستوريہ ہے کہ جنگ سے پہلے لوگوں کو اسلام کی دعوت دو وعظ و نصيحت کرو يہ دستور خود ہی مقصد کو واضح و روشن کر ديتا ہے پيغمبرِ اکرم ص کا فرمان ہے کہ اگر خدا ايک شخص کو بھی تمہاری وجہ سے ہدايت عطا کرے تو پوری دنيا کی ملکيت سے تمھارے لیے بہتر ہے۔اسلامی جنگوں کی بنياد قُربِ خدا اور ابدی سعادت کے حصول پہ استوار کی گئی ہے اخلاقی پہلو کا مکمل طور سے لحاظ رکھا گيا ہے ميدانِ جنگ ميں اگر کوئی مجاہد دشمن سے کوئی معاہدہ کر لے يا دشمن کو امان دے دے تو بڑے سے بڑا اسلامی حاکم اس معاہدے کو ختم نہیں کر سکتا اور ديئے ہوئے امان کو توڑ نہیں سکتا اسلام نے جہادميں کھيتوں کو نيست ونابود کر دينے، آب و دانہ بند کر دينے کو سختی سے روکا ہے بچوں بوڑھوں عورتوں ديوانوں بيماروں کو قتل نہ کرنے کی تاکيد کی ہے اور اُن کے خون کو محترم قرار ديا ہے اسی طرح دشمن کے نمائندوں اورسفيروں کو بھی محترم قرار ديا ہے اور واضح کر ديا کی کہ مکاری اور خيانت نہ کرنا کسی کے اعضائے بدن کو نہ کاٹنا مجبوری کے علاوہ کسی بھی صورت ميں درخت نہ کاٹنا۔ اسلام نے انسانيت کا احساس تمام لوگوں کے دلوں ميں پيدا کرنا چاہا ہے اور کسی بھی صورت ميں بے عدالتی کو جائز قرار نہیں ديا اور کسی بھی مسلمان کو حدودِ عدالت سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دی گئی

یہ بھی پڑھئے:  مِس ہینڈلنگ یا ڈیلنگ ؟ | محمد طیب زاہر

نام نہاد مسلمانوں نے جو اسلام کا تصور بدل کے رکھ دياسامراج کی يہ سازش کسی بھی سنی يا شيعہ کے خلاف نہیں بلکہ اسلام اور وطنِ عزيز کے خلاف ايک منظم سازش ہے کيوں کہ جب فرقوں میں اختلافات بھڑکيں گے تو اسلام کی روح مجروح ہو گی اور جب عوام ميں انتشار پھيلے گاتو ملک کا استحکام مجروح ہو گا 1985 /86 ايسے سال تھے جس ميں پاکستان کے اندر منظم طريقے سے فرقہ واريت کو ہوا دی گئی اور بازاری دماغ لوگوں کو سامراج نے استعمال کرنا شروع کيا اور فتویٰ سازی کے کارخانے قائم کيے گئے اہم بات يہ ہےکہ تنگ نظری چاہے کسی بھی فرقے ميں ہو نقصان کے سوا کچھ نہیں عوام کو جانناچاہيے کہ ہمارے درميان پھيلائے جانے والے اختلافات اور پراپيگنڈے بيرونی حملے سے کہيں زيادہ بدتر اور خوفناک ہيں سوال يہ ہے کہ اسکی روک تھام کيسے ہو سکتی ہے ؟

1- اس کے ليے سب سے پہلے تو ضروری یہ کہ عوام ميں اتنا شعور تو ہو کہ اچھے اور بُرے ميں تميز کر سکيں
2- عبادت گاہوں کو اختلافات کا گڑھ بنانے کے بجائے اخوت اتحاد کا پیغام ديا جائے تاريخ گواہ ہے کہ مسلمان جب بھی متحد ہوئے اُنہوں نے تاريخی کارنامے انجام ديے جن ميں قيامِ پاکستان ايک عظیم کارنامہ ہے اگر مسلمان متحد ہو کراپنےعليحدہ ملک کے حصول ميں کامياب ہو سکتے ہيں تو کیا اسے بچانے کے ليے اپنے ملک سے سامراج کو نہیں نکال سکتے يقيناً ايسا ممکن ہے مگر اس کے لیے اتحاد بين المسلمين کی اشد ضرورت ہے
3- تعليمی مدارس اورمساجد مسلمانوں کو قرآن وسنت کی روشنی ميں متحد رکھنے کے ليے ہيں ان مقامات کا تقدساس بات کی ہرگز اجازت نہیں ديتا کہ يہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتشار کے بيج بوئے جائيں
اہلِ منبر پہ يہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مصالحت کی فضا کو قائم رکھيں
4- سياست کے ميدان ميں وارد ہونے کےاصول مرتب ہوں جہاں تعليم يافتہ اور باشعور افراد اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکيں جو دینِ مبين سے ہم آہنگ ہو کر کمزوروں اورمظلوموں کے مدد گار ہوں ايسے لوگ نہ أئيں کہ جن کے اپنے ہاتھ خون سے رنگے ہوں مگر بد نصيبی سے سارا فساد ہی اسی لئے کہ جتنے بے دين کرپٹ احساسِ کمتری کے مارے کہ جن کی بھوک کبھی ختم ہونے والی نہیيں۔ وہ اقتدار پہ قابض ہيں اورفساد پھيلانے والے مذہبی عناصرانہی اقتدار پرستوں کے مراعات يافتہ اور منظورِ نظر ہيں
5- اور أخر میں يہ ضرور کہوں گی کہ وطن کی سلامتی اور آنے والی نسلوں کی اچھی تربيت اور بہترین
مستقبل کے ليےاس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ جو اقتدار سے کسی صورت ہٹنے کو تيار نہ ہو اُسے ہٹانا اُتنا ہی ضروری ہوتا ہے

یہ بھی پڑھئے:  حکایاتِ سعدی - خوشنود زہرا

حالیہ بلاگ پوسٹس