Qalamkar Website Header Image

یہ بندھن تو پیار کا بندھن ہے

zari ashrafنوے کی دہائی کے اوائل کی بات ہے ملتان کچہری میں پیش آنے والا واقعہ بہت مشہور ہوتا ہے بھلے وقت تھے کہ میاں بیوی طلاق کے معاملے کو لےکر عدالت جاتے ہیں. کچھ امن پسند وکلاء اور جج ان میں صلح کی کوشش کرتے ہیں شوہر مان جاتا ہے پر خاتون آپے سے باہر ہو جاتی ہے اور اپنے شوہر کو بھری کچہری میں جوتوں سے خوب مارتی ہے. بہت سے لوگ اس واقعے کے چشم دید گواہ ہوتے ہیں. اچھا خاصا مالدار خاندان تھا یہ خیر طلاق ہو جاتی ہے. وہ خاتون ہماری بھی جاننے والی تھیں .اس واقعے کے تقریبا دس سال بعد ہمارے گھر آئیں گاڑی سے اتریں تو پاؤں میں جوتا نہیں تھا خیر اندر بیٹھے اور جوتا نہ پہننے کی وجہ پوچھی تو پاؤں دیکھنے پر پتا چلا کہ دونوں پاؤں پر بڑے بڑے چھالے تھے کہتیں کہ ساری دنیا سے علاج کروا چکی ہوں .دم بھی کروائے ہیں پر میں پچھلے پانچ سال سے جوتا نہیں پہن سکتی. اور رونے لگی کہ مجھے اس کی سزا مل رہی ہے جو زیادتی اپنے شوہر سے کی تھی .
یہاں یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تشدد یا زیادتی صرف عورتوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض عورتیں بھی اپنے شوہر کا جینا حرام کیے رکھتی ہیں. اور عورتوں کی اس جہالت کا تعلق تعلیم سے ہرگز نہیں ہے .بلکہ بہت سی پڑھی لکھی خواتین کا رویہ اور جو زبان اپنے شوہر اور سسرال.کے لیے استعمال کرتی ہیں ان ے ڈگری یافتہ.ہونے پر افسوس ہوتا ہے کہ تعلیم ان باجیوں کا کچھ نہین بگاڑ سکی.
عزت اور احترام ہر رشتے کی خوبصورتی اور مظبوطی کی بنیاد ہے عورتوں کی طرف سے ملنے والے طعنے نہ صرف شوہر پر برا اثر ڈالتے ہیں بلکہ بچوں کی تربیت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں. اگر اللہ کے فضل و کرم اور سسرال کی مہربانی سے اپ ایک اچھی جاب کرنے کے قابل ہو گئی ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اپنی کمائی کے طعنے دےدے کے ان کا جینا حرام کردیں.کہنے کو تو میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں تو دونوں پہیوں کو مل کے گاڑی چلانی چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کا دماغ گمائے رکھیں.
اکثر خواتین کو یہ وہم رہتا ہے کہ ان کے شوہر کے دوسری خواتین کے ساتھ غلط مراسم ہیں اور اسی بات کو بار بار دہرنا اور طعنے دینا اور نہ صرف شوہر کا جینا حرام کیے رکھنا اپنا معمول بنا کر پورے خاندان میں شوہرکو ذلیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں حالانکہ یہ ان کی بھول ہوتی ہے بےعزتی وہ اپنی ہی کر رہی ہوتی ہیں..ایک بات تو اچھی طرح سمجھ لیں جو آپ کا ہے وہ کہیں جائے گا نہیں اور جانے والے کو آپ جو مرضی کر لیں روک نہیں سکتے. بہت سے خاندان ٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں اگر خواتین بلاوجہ کا شک کرنا اور طعنے دینا چھوڑ دیں اور اپنی زبان کنٹرول میں رکھیں.
پر ہم کیوں رکیں ہم نے تو دل میں ٹھان رکھی ہے کہ اس بندے کو بدنام کرنا ہے نیچا دکھانا ہے.
تو سنو شادی کے بعد عورت کا مان اور پہچان شوہر کے دم سے …نہ اپنا جینا حرام کریں نہ اپنے شوہر کا. زندگی ایک بار ملی ہے اپنی زندگی کے سکون کے لیے معاف کرنا سیکھیے اور اپنے جیون ساتھی کی زندگی کو بھی سکون دیں. تھوڑا سا اپنے دل کو بڑا کیجئے شادی کے بعد اپنے لیے نہیں بچوں کے لیے جیا جاتا ہے.

حالیہ بلاگ پوسٹس