بچپن میں انسان جتنا رنگوں اور تصویروں سےسیکھتا ہے شائد ہی کسی اور چیز سےسیکھتا ہو. اُنہی دنوں کی بات ہے جب میں اپنے ملک کے جھنڈے میں رنگ بھرتے ہوئے سوچتی تھی کے یہ جو سبز رنگ ہے اس میں، میری دوست سلمیٰ، تہمینہ، حرا اور میری کلاس کے سب مسلمان بچے آتے ہیں اورجو سفید ہے اس میں میری دوست انجلا، برکھا اور ان کے گھر والے آتے ہیں کیوں کے وہ کرسچن ہیں. ویسے تو قائد آعظم نے یہ ملک ہم مسلمانوں کے لئے بنایا تھا لیکن کیوں کے ان لوگوں نے بھی اس میں رہنا تھا اس لئے جھنڈے میں بھی ان کو الگ سے جگہ دے دی تاکہ سب ساتھ بھی رہ سکیں اور ہم اپنی مسجد میں جبکہ انجلا لوگ اپنے چرچ جا کر عبادت بھی کر سکیں اور ایسا ہی ہوتا رہا لیکن جیسے جیسے وقت گُزر تا گیا میرے اس نظریے میں ترمیم ہوتی گئی. سب سے پہلا جھٹکا تب لگا جب مجھے پتا چلا کے جھنڈے میں یہ جو سبز رنگ ہے یہ ایک نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سارے شیڈز ہیں. اور سلمیٰ تہمینہ حرا اور میں ایک شیڈ میں نہیں آتے. اور اس کی وجہ یہ پتہ لگی کے کیونکہ ہم ایک جیسے مسلمان نہیں ہیں اس لئے میں جھنڈے کے اُس حصے میں نہیں آتی جہاں وہ لوگ ہیں . یہ بات اس عمر میں میرے لئے صدمے سے کم نہیں تھی.اگلا جھٹک تب لگا جب کچھ دوستوں نے احساس دلایا کے وہ جھنڈے کے جس حصے میں آتے ہیں وہ زیادہ گہرا ہے اور میں کیوں کے ان سے مختلف ہوں اس لئے میرے حصے میں ہلکا شیڈ آتاہے. یہ بتاتی چلوں کے گہرے رنگ میں آنے کا مطلب تھا کے وہ زیادہ اچھے مسلمان ہیں اور میں کم… یہ ایک اور صدمہ تھا . پھر سال میں کچھ دن ایسے بھی آتے جب میرے گھر میں کوئی خوشی نہیں منائی جاتی تھی یہاں تک کے سالگرہ بھی نہیں ان دنوں میں میرے دوست میرے سیاہ لباس پہ مجھے تنقید کا نشانہ بناتے تھے. کبھی کبھی رنگوں سے انسان کتنا کُچھ سیکھتا ہے نا.. پھر ایک دن فصیح الدین نے جو کے میری کلاس کا مانیٹر تھا باقی بچوں کو بتایا کہ جس جگہ میں جاتی ہوں اس کو امام بارگاہ کہتے ہیں اور وہاں باقی مسلمان نہیں جاتے بلکہ گندے مسلمان جاتے ہیں یہ بات اس کی امی نے اس کو بتائی تھی. اس دن کلاس کے بچوں کو دو باتیں پتا چلیں ایک یہ کے فصیح الدین سب سے ڈارک گرین شیڈ میں آتا تھا کیوں کہ وہ سب سے پکا مسلمان تھا اور دوسری یہ کے چونکہ میں ان سب سے مختلف تھی اس لئے میرا گرین شیڈ سب سے لائٹ ہے. میں نے جب یہ سب سنا تو پریشان ہوئی اور سوچا کے میں جھنڈے کی ڈارک سائیڈ سے ہوتے ہوتے اتنے لائٹ شیڈ میں آتی جا رہی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کے ایک دن میری والی سائیڈ کا رنگ ہی ختم ہوجائے لیکن پھر ایک سوال پہ میرا دماغ رُک گیا اور وہ یہ تھا کہ ایسے تو جھنڈے کا حُلیہ ہی بدل جائے گا. اور پھر ایک دن وہی ہوا جس کا ڈر تھا . فرق یہ تھا کے یہ کلاس اسکول کی نہیں کالج کی تھی. اسلامیات کی کلاس میں ہونے والی ڈسکشن کے بعد باہر نکلے تو ایک لڑکی میرے پاس آئی اس کی صرف آنکھیں ہی نظر آرہی تھیں اس نے مجھ سے کچھ سوال پوچھے. لوگ نئے تھے لیکن سوال وہی پرانے چونکہ میں اسکول سے کالج آنے تک رنگوں کے مختلف شیڈ دیکھ چکی تھی لہذا میں سمجھ گئی کہ آج پھر سے کوئی رنگ مجھے کُچھ نیا سبق سکھانے جا رہا ہے. القصہ مختصر میرے جواب دینے پر اس لڑکی نے مجھے کہا کے میں کان کھول کر سن لوں کہ میرا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے .میں نے پوچھا وہ کیسے؟ جواب ملا اس کی مسجد کے مولانا کا کہنا ہے کہ میرے جیسی فکر کے لوگ کافر ہیں میں نے پوچھا لیکن میں قرآن اور نماز پڑھتی ہوں کلمہ پڑھتی ہوں پھر بھی کافر ہوں ؟ اس نے کہا ہاں صرف کافر نہیں ہو تمہیں مارنے والے کو جنّت ملے گی میں نے پوچھا یہ بھی مولوی صاحب نے بتایا ہے کیا؟ اس نے کہا ہاں. اس دن مجھے فصیح الدیں کی امی اچانک ہی یاد آئیں تھیں. اسکول کے اس دن کی طرح آج پھر میں ایک عجیب کشمکش میں گھر پہنچی تھی. کھانا کھاتے ہوئے نگاہ ٹی وی پر گئی تو خبروں میں نماز جمعہ میں خودکش حملے کی فوٹیج چل رہی تھی. اور میری کشمکش ختم ہوچکی تھی. اس لڑکی کی بات حقیقت کے روپ میں میرے سامنے تھی اس کے مولانا کی فکر کے لوگوں نے میرے لوگوں کو کافر سمجھ کر مار ڈالا تھا. میں اس دن سمجھ گئی تھی کہ میں اس جھنڈے کے کسی سبز شیڈ میں کیوں نہیں آتی تھی…. کیونکہ میرا والا حصہ تو اُن لوگوں نے جنت کی لالچ میں سرخ کر دیا تھا. اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں دن بدن سرخی بڑھتی گی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے. پاکستان کا جھنڈا بنانے والوں نےتو سوچا بھی نہیں ہوگا کے ایک وقت آئے گا جب پاکستان میں یہ جھنڈا "out of Fashion” ہو جائے گا. مجھے قائد کو اطلاع دینی ہے کےاب یہاں مختلف شیڈز کے جھنڈے پائے جاتے ہیں اور مزے کی بات یہ کے جو اُس وقت آپکو کافراعظم کہتے تھے اب وہ آپ کے بنائے ہوئے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں. اقبال کے خواب کی تعبیر خون آلود ہوچکی ہے لیکن فِکر نہ کریں ایوانوں میں اور نوٹوں پر آپکی تصویر اب بھی لگی ہے. بس اس سے زیادہ کی امید اب نہ رکھئیے گا.
Rest in Peace!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn