Qalamkar Website Header Image

ادبی صحافت کا مستقبل کیا ہے؟ | محمد عامر حسینی – قلم کار

فیصل آباد سے ‘نئے ادب کا ترجمان ‘ کے نعرے کے ساتھ ادبی رسالہ ‘نقاط’ شایع ہوتا ہے۔ابتک اس رسالے کے 15 شمارے آئے ہیں۔تازہ شمارا اکتوبر کے مہینے میں شایع ہوا اور ہم تک نومبر میں پہنچا ہے۔اس کے مدیر قاسم یعقوب ہیں جو خود بھی مضمون نگار ہیں۔دو کتابوں کے مصنف ہیں۔اور ان کی کتاب ‘لفظ و تنقید معنی ‘ کے پیش لفظ اور چھے عدد مضامین پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ وہ جدیدیت و مابعدجدیت کے بین بین کی چیز ہیں اور مارکس واد سے الرجک نظر آتے ہیں۔اور یہ ان کا حق ہے کہ وہ تنقید میں خود کو کس مکتبہ فکر سے وابستہ کرتے ہیں۔

میرے سامنے نقاط کا جو تازہ شمارا ہے،اس میں مضامین کے باب میں آصف فرخی (ساراؤکفتہ اور رنگ چور)، ڈاکٹر عباس نیر(مجھے نظم لکھتی ہے)،خالد جاوید ( کچھ’قبض زماں’ بارے میں)،سرور الھدی ( فراق،عسکری،فاروقی)،سید تحسین گیلانی ( سیاہ کوا) ،نسیم سید (مست توکلی اور شاہ محمد مری:امن کی فکری تحریک کی ابتداء ) اور حنا جمشید ( بورخیس کی کہانی "دست خداوند”) شامل ہیں۔سید محمد اشرف نے’نیر مسعود کی کہانیاں: کھوئے ہوؤں کی جستجو’ کے عنوان سے نیر مسعود پہ لکھا ہے۔

تراجم میں چینی زبان میں مائیکرو فکشن،معاصر چینی افسانے،ہاورڈ فاسٹ، جین ہارڈی ،کئیرلن گجن، شبنم اور دیگر کے تراجم شامل ہیں۔خصوصی مطالعہ میں ارون دھتی رائے کا تعارف عمر جاوید نے اور ارون دھتی رائے کے دو انٹرویو اور اس کی دوسرے ناول کے پہلے باب اور چوتھے باب کا ترجمہ شامل ہے۔منگل مور کے عنوان سے عرفان جاوید کا ایک مضمون اور سلمی اعوان کا سفری احوال پہ مبنی ایک مضمون اور پھر رموز فنون کے باب میں پروفیسر شہباز علی ہاشمی اور اقدس علی قریشی کے مضامین اور پھر حصّہ غزل و نظم ۔افسانہ کے باب میں چھے افسانہ نگاروں کی کہانیاں،ناول کے باب میں زیف سید کی تحریر۔سماجیات کے باب میں ہودبھائی،یونس خان اور ڈاکٹر عامر سعید کی تحریریں اور ‘عورت ،صنف اور سماج ‘ کے باب میں فارینہ الماس،فیاض ندیم اور ،افیہ شاکر کی تحریریں۔کتاب تبصرے میں نسیم سید ،رابعہ الربا سعدیہ ممتاز کے تبصرے۔

یہ بھی پڑھئے:  خرم ... اک امید کا دیا تھا

یہ 505 صفحات پہ مشتمل رسالہ ہے جس کی تدوین یعقوب قاسم نے کی ہے۔اور رسالے میں کسی بھی مجلس ادارت کے تحت کوئی نام موجود نہیں ہے تو گمان یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رسالہ یعقوب قاسم کی کاوش ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اب اسے اتفاق کہہ لیں کہ جب مجھے ‘نقاط ‘ کا تازہ شمارہ موصول ہوا اور میں نے اسے پڑھنے کے لئے کھولا تو قاسم یعقوب نے رسالے کے اداریے میں ‘ادبی صحافت’ کے ایشو کو ہی بنیاد بنایا ہوا تھا اور میں بمبیئ کے معروف اردو و ہندی کے ادیب مرحوم ساجد رشید کے رسالے ‘نیاورق’ کےاداریوں کا مجموعہ دستخط پڑھ رہا تھا وسیم کاویانی کا شکریہ کہ انہوں نے اس مجموعے کو اکٹھا کردیا۔شاداب رشید کی مہربانی کہ مبمئی سے صوابی اور صوابی سے خانیوال یہ مجھ تک پہنچ گیا۔
ڈاکٹر ظ انصاری نے کسی جگہ طنزیہ طور پہ اردو کے ادبی رسالوں بارے لکھا تھا:
‘اردو زبان کا ہر رسالہ علمی و ادبی رسالہ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں غالبا افسانوں اور غزلوں ہی کو علم و ادب سمجھا جاتا ہے۔’
لیکن ساجد رشید نے اس کلیشے کے توڑ دیا تھا۔نقاط میں قاسم یعقوب نے ‘ادبی صحافت ‘ کو سنجیدگی سے نہ لئے جانے اور اسے غیر ادبی سرگرمی سمجھے جانے کا شکوہ کیا ہے۔میرا خیال ہے کہ ادبی صحافت کے بغیر ادبی رسالوں کو قاری میسر آنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا جارہا ہے اور ایسے ادب کی زندگی بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے جو سماج اور معاشرے سے بیگانگی برتنے کی کوشش کرتا ہے۔اور دنیا زاد، آج جیسے اردو کے رسالوں کے زیادہ تر قاری وہ ہیں جو عرف عام میں ادبی دنیا سے تعلق نہیں رکھتے اور ان کی دلچسپی سماجیات میں زیادہ ہے۔

قاسم یعقوب سوشل میڈیا کی آزادی اور اس کے ادبی جمالیات میں دخیل ہونے پہ شکوہ کناں ہیں اور اور وہ ادب کی سوشل میڈیا میں قرآت کو ‘اشتہار کی قرآت ‘ قرار دے رہے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اس تاثر میں جزوی صداقت ہے یہ مجموعی طور پہ ٹھیک نہیں ہے۔سوشل میڈیا نے ادب کے پھیلاؤ اور وسعت میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کو کسی بھی قاری کی آزادی کو محدود کرنے کی بات نہیں کرنی چاہئیے۔جو پوسٹ پبلک ہوئی ،اس پوسٹ پہ جو قابل قدر تبصرہ ہوگا وہ جگہ بنائے گا جبکہ اشتہاری اور بے ہنگام شور جلد ہی ختم ہوجائے گا۔مجھ جیسے لوگ بھی اسی سوشل میڈیا کی وجہ سے سامنے آئے ہیں۔ورنہ ایک زمانے میں تک جب تک آپ وزیر آغا یا قاسمی صاحب کے گروپ میں شامل نہ ہوتے تو آپ کا کسی رسالے میں چھپنے کا امکان ہی معدوم ہوجاتا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:  بہت سفاک ہے بارود کی بُو (حاشیے) | مجتبیٰ حیدر شیرازی

پاکستان میں ادبی صحافت کے پھلنے پھولنے کے پورے امکانات موجود ہیں۔اس وقت سوشل میڈیا میں ادبی صحافت اپنے عروج پہ ہے۔حال احوال، روزن، مکالمہ ، ہم سب، قلمکار ،ایل یو بی پاک سمیت کئی اردو سوشل بلاگ ویب سائٹس کی ادارت ادیب صحافیوں کے ہاتھ ہی میں ہے اور یہ پاکستان کے مقبول اردو بلاگ ویب سائٹس میں بدل چکی ہیں۔بلکہ میں تو کہوں گا کہ ‘نقاط’ کو بھی آن لائن لانے پہ کام شروع کرنا چاہئیے۔تاکہ ایک کلک کرے اسے پوری دنیا میں پڑھا جاسکے۔بے شک اس پہ لاگ ان ہونے کی قیمت رکھ دی جائے۔ڈیجٹل فارمیٹ میں اردو کے ادبی رسالوں کے آنے سے ان رسائل کی زندگی کا دورانیہ اور بڑھ جائے گا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس