Qalamkar Website Header Image

علامہ اقبال اردو کی ادبی آفاقیت کے نقیب | سہیل انجم (انڈیا) – قلم کار

شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک مفکر اور دانشور بھی تھے۔ مختلف قومی وبین الاقوامی معاملات پر ان کی آفاقی نظر تھی۔ ان کی نگاہ دور بیں ان چیزو ں کا بھی احساس کر لیتی تھی جو پردہ خفا میں پوشیدہ ہوں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ایسے بہت سے نکات پر روشنی ڈالی ہے جن پر عام لوگوں کی نظر نہیں پہنچ سکی۔ انھوں نے اردو شاعری کے ذریعے ایسے بہت سے گوشے بے نقاب کر دیے ابھی تک پر اسرار راز بنے ہوئے تھے۔ انھوں نے سب سے پہلے شاعری میں ایسی علامات اور ایسے الفاظ استعمال کیے جو اس سے پہلے مستعمل نہیں تھے۔ ملی معاملات ہوں یا غیر ملی معاملات، ان کی چھٹی حس بہت سی نادیدہ باتوں کی تہہ تک پہنچ جاتی تھی۔ پروفیسر عبد الحق ہندوستان میں ماہرین اقبالیات میں ایک ممتاز رکھتے ہیں۔ انھوں نے راقم الحروف کے ساتھ ایک انٹرویو میں علامہ اقبال سے متعلق ایسی بہت سی باتوں پر روشنی ڈالی جو اقبال کی ادبی آفاقیت کو مستحکم کرتی ہیں۔ ان سے انٹرویو کی روشنی میں جو حقائق منظر عام پر آئے ہیں وہ بشکل مضمون ذیل میں پیش ہیں:
علامہ آزادی کے علم بردار، مزدوروں کے ہم نوا اور سرمایہ داری کے مخالف تھے۔ انہوں نے جب 1904میں نظم ’تصویرِ درد‘لکھی تو وہ اردو ادب میں پہلی للکار تھی جس میں انہوں نے ہندوستانیوں کو خطراتِ افرنگ سے ہوشیار کیا تھا۔انہوں نے تحریک آزادی میں مختلف پہلوؤں سے ہندوستانیوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور اسی کے ساتھ انہوں نے ہندوستان کی عظمت کے گیت بھی گائے۔عوام کے درمیان اتحاد کی دعوت دی اور فرنگی استحصال کی سازشوں سے باہر نکلنے کے لیے جھنجھوڑا بھی۔انگریزوں کو سب سے پہلے اقبال نے ہی چنگیز کہا تھا اور عوام کو مغرب کی فسوں کاری سے باخبر کیا تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ نہ لکھتے:
رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاوگے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ڈاکٹر اقبال نے حصول آزادی کے لیے تین محاذ قائم کیے تھے: اول:ہند کی عظمت کا احساس دلانا۔ دوم:مختلف فرقوں کے درمیان محبت اور اخوت کا جذبہ پیدا کرنا۔ سوم:انگریزوں کے خلاف برسرپیکار ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1904ء میں ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ لکھا۔ اس میں ملک کی عظمت کا بھی بیان ہے اور اخوت و محبت کا درس بھی ہے۔محبت کا جذبہ پروان چڑھانے کے لیے اقبال نے کہا:
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے
محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طورہوتا ہے
اردو ادبیات میں علامہ نے سب سے پہلے اس قسم کے الفاظ استعمال کیے:اٹھو، جاگو، رست خیز، برخیز،انقلاب،از خواب گراں خواب گراں خواب گراں، کمر بستہ ہونا، کفن بدوش ہوناوغیرہ۔ اقبال کی شاعری احتجاجی پیغام کی شاعری ہے۔انگریزی اقتدار کے خلاف جتنی شدت سے جدوجہد اقبال کے یہاں ہے کسی اور کے یہاں نہیں ہے۔اسی طرح سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام کے خلاف سب سے پہلے اردو ادبیات میں اقبال نے آواز اٹھائی۔
علامہ صالح فکر کے طرف دار تھے اور کہا کرتے تھے کہ فکر کی گمراہی انسان کو حیوان بنانے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے،جب کہ صحت مند فکرکی تازہ کاری سے ہی قوت عمل مرئی پیکر وجود میں نمودار ہوتی ہے۔ جہان تازہ کی تخلیق کا یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور اس بدیہی حقیقت کے بعد تدبیر یا فکر پر پابندی عائد کرنا مہلک ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا ہے :
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے،ذوقِ انقلاب
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے، ملت کا شباب
انہوں نے مزید کہا کہ تصوراتی سطح پر فکر کے ساتھ ادب بھی وسعت طلب ہے۔کسی بھی تحریک کے زیر اثر تخلیق پانے والا ادب بھی اسی زمرے میں شامل ہے جو ادبی مطالبات بھی پورے کرتا ہے اور دین و دانش کی اقدار کی قندیل بھی روشن کرتا ہے۔دوسری طرف وہ ادب ہے جس کا حصہ اقدار کا حامل تو ہے مگر ادبی یا جمالیاتی انبسات سے خالی ہے۔اقبا ل نے اشارہ کیا ہے:
کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی
اقبال نے بار بار حوالوں سے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ شاعری، صورت گری اور داستان سرائی تمام فنون لطیفہ انسانیت کی تعمیر میں معاون ہوں تو قابلِ قبول ورنہ بصورتِ دیگر قابلِ نفریں ہیں۔فن کا مقصد دائمی انبساط و عرفان کی بخشش ہے۔وہ فن جو خواب آور ہو اور خیالات میں گم ہو جانا سکھاتا ہو مذموم ہے۔اقبال نے تاکید کی تھی کہ وہ فن زہرناک ہے جو: روح کو کرتے ہیں خوابیدہ بدن کو بیدار یا جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا وہ ہنر کیا۔
مطالعہ اقبال کی مختلف اور متنوع تعبیریں قارئین کو سرشار کرتی ہیں اور حیرتوں میں اضافے کا موجب بھی بنتی ہیں۔ہم اپنی سہولتوں اور سوچ کے مطابق اقبال کو زمان ومکان میں رکھ کر تفہیم کو آسان بنا لیتے ہیں۔اقبال بھی استفہامیہ کا سبب بنتے ہیں۔ وہ کبھی شاعرِ مشرق تو کبھی شاعرِ فردا پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ نغمہ سرایانِ ہند ہیں مگر آہنگ حجازی کی ترجمانی کرتے ہیں۔وہ خیابان کشمیر کے پروردہ ہیں مگر روئے زمین کے کسی بھی حصے سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ہماری نظر صرف ایشیا تک گئی، حقیقت یہ ہے کہ وہ ان حدود سے آزاد ہیں۔ امروزو فردا یا ایشیا بلکہ اس خاک داں سے کنارہ کشی کا وہ اعلان بھی کرتے ہیں اور حوروں اور فرشتوں کو اسیر کرتے ہیں:
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
ہم نے اقبال کی بیکراں بصیرت سے چشم پوشی کی ہے۔یہ نہ جانا کہ اقبال کی فکر و نظر پردہ وجود کو چیر کر تقدیر عالم کو بے حجاب دیکھتی ہے۔ان کی دروں بینی کائنات کے ماہ و سال کی تقویم ساز قوت رکھتی ہے اور ارض و سما کی پراسرار کیفیات کی رازدار ہی نہیں نگہ داری بھی کرتی ہے۔ اقبال روئے زمین کے تمام باشندوں کو خطاب کرتے ہیں۔ اس عمومی آواز میں کسی تفریق کو دخل نہیں۔ انقلابی آواز کے مخاطب تمام انسان اور سبھی آفاقی جہات ہیں:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ
اقبال کی شاعری کے دو ایسے منفرد پہلو ہیں جن کی نظیر عالمی ادب میں شایدہی ملے۔ان کا کلام عصری واقعات و حادثات کا جام جہاں نما ہے جس میں رنج و راحت کے کئی پہلو بہت نمایاں ہیں۔دوسری انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے شعر و تخلیق کو عالمی معاملات و مسائل کی آگہی بخشی۔اردو زبان آفاقی وسعتوں سے ہم کنار ہوئی۔ جبکہ دوسرے ادب محدود تصورات میں پابند زنجیر رہے۔
علامہ اقبال کی تخلیقات میں تیرہ سو سے زائد آثار و اماکن کے حوالے ہیں۔ ان کے کلام میں ایشیائی ملک و ملت کے علاوہ دوسرے ممالک کے نام بھی موجود ہیں۔ جیسے امریکہ، اندلس،انگلستان، جاپان، جرمنی، فرانس،مصر، ولایت، ہسپانیہ،یورپ اور یونان وغیرہ۔ان ملکوں اور شہروں کی تاریح و تحریک پر اور عصری کوائف پر اقبال کی نظر ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ان کے بیانات کا یہ عالمی منظرنامہ ان کی بصیرت کے یقین کے لیے کافی ہے۔یہ دوسری بات ہے کہ ان کے قلب و نظر کو اس بر اعظم سے جو شیفتگی ہے وہ کسی دوسرے خطہ ارض سے نہیں ہے۔اقبال اور ان کے اسلاف کا مسکن و مدفن ہونے کے ساتھ ان کی تاریخ و تہذیب کا عروج و زوال بھی اسی خاک وخمیر سے وابستہ رہاہے۔ان کے سوز و ساز میں یہی ایشیا ہے جو روح جان وتن ہے:
سوز و ساز و درد و داغ از آسیاست
ہم شراب و ہم ایاغ از آسیاست
لیکن اقبال کو یورپ کے ہاتھوں ایشیا کا استحصال برداشت نہیں۔یورپ میں تین سال کے مختصر قیام نے ان کو ایک نئی آگہی بخشی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی اقوام کے ساتھ مغربی فکر و فسوں کی عیاری کے دل خراش مشاہدات سے بھی اقبال متنفر ہوئے تھے۔ ہندوستانی ادبیات میں یورپ کے خلاف اقبال کا یہ پہلا اعلانیہ تھا:
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
روسی انقلاب کو آفریں کہنے والے اقبال ہندوستانی ادبیات میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنی بصیرت سے محکوم ایشیائی اقوام کے لیے اسے نوید صبح آزادی سمجھا۔لیکن وہ ایک طرف جہاں مغرب کی فسوں کاری سے مضطرب تھے وہیں مصطفی کما ل پاشا کے سیاسی نظریات سے د ل گرفتہ بھی تھے۔ جبھی تو انہوں نے کہا:
اگر عثمانیوں پرکوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
افغانستان اور فلسطین کے بارے میں بھی اقبالنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔اقبال یہ کہنے پر مجبورہوئے:
خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی بصیرت آج کی صورت حال کو بے پردہ دیکھ رہی تھی اور غیرت دلا رہی تھی۔انہیں اس کا شکوہ تھا کہ امیر عرب صرف نام و نسب کا حجازی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ حجازی ہے نہ غازی۔یہی شیخ حرم ہے جو گلیمِ بوذر اور چادرِ زہرا کو بیچ کھاتا ہے۔انہوں نے امت عربیہ کے ضمیر کو بھی للکارا تھا اور انگریزوں کی فسوں ساز حکمت عملی سے باخبر رہنے کی تاکید بھی کی تھی۔1923ء میں ہاشمیوں کے ہاتھوں ناموس دین مصطفی کا سر بازار بکنا اقبال کو گوارا نہ تھا۔ ان کا یہ قول ضرب المثل بن گیا:
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
انہوں نے عربوں کی لوحِ تقدیر بھی پڑ ھ لی تھی اور سرزمین عرب اقبال کے فیض نظر سے محروم رہی۔ مغربی آقاوں کی غلامی سے نجات حاصل نہ ہو سکی۔البتہ تھوڑی جنبش ضرور پیدا ہوئی اور اقبال کے اشعار کے تراجم اور مختلف تحریروں نے ایک تحریک پیدا کی اور پھر 1933ء میں طارق بن زیاد کی دعا مستجاب ہوئی:
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے
عراق و حجاز کی طرح اقبال کو ایران سے بھی ایک گہری جذباتی وابستگی تھی۔وہ مطمئن تھے کہ ان کا پیغام ایران میں پہنچ چکا ہے۔علامہ اقبال عالمی امن کی خاطر جنیوا میں اقوام متحدہ کے قیام سے مطمئن نہ تھے۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا:
تہران ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا
شائد کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
اقبال کو افغانستان اور کشمیر سے بھی جذباتی وابستگی تھی۔وہ کابل کو دہلی پر ترجیح دیتے تھے کیونکہ دہلی محکوم تھا اور کابل آزاد۔افغانستان اور وہاں کے جیالے نوجوانوں کے بارے میں اقبال نے متعدد اشعار اور نظمیں کہی ہیں۔
قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا:
رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستاں، ابھی خودی پہچان
ابھی خودی پہچان
او غافل افغان
ادھر کشمیر کی تحریک آزادی میں اقبال کے اقوال و اشعار کو شروع سے ہی دخل رہا ہے۔اقبال کو آتش چنار کی تمازت سے بڑی امیدیں تھیں:
جس خاک کے ضمیر میں ہو آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
علامہ نے 1936ء میں یہ پیشین گوئی کی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب یہودی نظام فکر و عمل کی صورت میں ہر محاذ پر حاوی ہوگا۔سب سے پہلے عیسائی اس کی زد میں ہوں گے، کلیساوں کے متولی یہودی ہوں گے اور مقتدی عیسائی ہاتھ باندھ کر ان کی امامت قبول کریں گے۔ساحل چین سے بحر روم تک انسانوں کی ہئیت اجتماعیہ کا تصور انہیں اکثر تڑپاتا رہا۔یہ اضطراب کسی نہ کسی حد تک موثر ہوا اور 1947ء کے بعد ترکی، ایران اور پاکستان کے علاقائی تعاون کی تنظیم نے جنم لیا۔ مسلم ممالک اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے متحدہ اداروں کے قیام میں بیداری کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔سارک ممالک کا اتحاد وجود میں آیا۔جنوب مشرقی ممالک میں تعاون کی انجمن قائم ہوئی۔ روس نے اپنے حلیف ملکوں کی دولت مشترکہ بنائی اور افرو ایشیائی ممالک کے باہمی اتحاد کی صورت بھی پیدا ہوئی۔(یو این این)

حالیہ بلاگ پوسٹس