وطن عزیزمیں پانامہ لیکس کے معاملے پرتاحال گرماگرم بحث جاری ہے یہ معاملہ شائد اتنی طوالت اختیارنہ کرتااگراس میں وزیراعظم کے بچوں کے نام نہ آتے کیونکہ ہم ایسے کئی معاملات سے گزرے ہیں جب ایک معاملہ پوری قوم کیلئے انتہائی اہمیت اختیارکرلیتاہے اوراسکی اہمیت کے پیشِ نظر لگتاہے کہ یہ معاملہ اپنے انجام کوضرورپہنچے گامگرچنددن گزرنے کے بعدآہستہ آہستہ قوم کے ساتھ ساتھ حکمران اورمیڈیابھی یہ معاملہ بھول بھال جاتاہے اور تمام لوگ اپنے اپنے امورکی انجام دہی میں جت جاتے ہیں پانامہ لیکس کے معاملے میں بھی اگراہم شخصیات کے نام نہ آتے تو یہ معاملہ بھی کب کا مرکھپ چکاہوتامگر ملکی اپوزیشن کوبھی چونکہ خود کومیڈیااورعوام کی نظروں میں اِن رکھنے کاایک موقع ہاتھ آیاہے لہٰذا تقریباًڈیڑھ ماہ گزرجانے کے باوجودپانامہ لیکس کامعاملہ ناصرف زندہ وتابندہ ہے بلکہ اس میں آئے روزنت نئے انکشافات سامنے آنے کا بھی سلسلہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جاری وساری ہے اب تک متعددپردہ نشین بے نقاب ہوچکے ہیں اور جو ’’ماہتاب ‘‘چہرے ابھی نقابوں میں چھپے ہوئے ہیں ان سے بھی نقاب ہٹ رہے ہیں اپوزیشن نے پانامہ لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کوآڑے ہاتھوں لیااورانکے سامنے سات سوال رکھ کراسمبلی میں انکے جوابات کامطالبہ کردیاگیا(یادرہے سوالات میڈیامیں کئے گئے جبکہ جوابات اسمبلی میں مانگے گئے)تقریباًدوہفتوں کی تگ ودودکے بعداپوزیشن وزیراعظم کوقومی اسمبلی لانے میں کامیاب ہوگئی سپیکرنے اعلان کیاکہ وزیراعظم کے خطاب کے بعد قائدحزب اختلاف خورشیدشاہ اورانکے بعدعمران خان خطاب فرمائیں گے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں حسب معمول اپنی ٹیکس ادائیگی اوردبئی سمیت سعودی عرب میں اپنی فیکٹریوں کاتفصیلی ذکرکیاجواب موجودنہیں وزیراعظم کاکہناتھاکہ ان فیکٹریوں کی فروخت سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے انہوں نے ان دونوں فیکٹریوں کی مالیت بھی بتادی انکے خطاب کے بعدگرماگرم تقریروں کی توقع کی جارہی تھی مگراپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے کہاکہ چونکہ وزیراعظم نے ہمارے سات سوالوں کے جواب نہیں دیے لہٰذا ہم اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہیں اوراسکے ساتھ ہی پوری اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کرگئی اپوزیشن کی واک آؤٹ پہ ملک کے سنجیدہ حلقے حیران رہ گئے اپوزیشن کی وزیراعظم کواسمبلی بلاکر خود باہرچلے جانے کی منطق کسی کی سمجھ میں نہیں آئی بعدمیں خورشیدشاہ نے بتایاکہ چونکہ وزیراعظم نے ہمارے سات سوالوں کے جواب نہیں دیے لہٰذا ہمارے پاس واک آؤٹ کے سواکوئی چارہ نہیں تھا انہوں نے اسمبلی فلورپہ اپنے مختصرخطاب میں کہاکہ وزیراعظم نے ہمارے سات سوالوں کے جواب نہ دےکریہ سوال سترتک بڑھادیے بعدازاں اپوزیشن کی جانب سے ستر سوالوں کاذکرباربارکیاگیاجس کامطلب یہی لیاجاسکتاہے کہ اپوزیشن پہلے سے طے کئے بیٹھی تھی کہ واک آؤٹ کرناہی ہے اور جن سترسوالوں کی بازگشت بعدمیں سنائی گئی یہ سوالات پہلے سے تیارکئے گئے تھے ورنہ جہاں تک اپوزیشن کے سات سوالوں کے جوابات کاتعلق ہے یہ وزیراعظم کی جانب سے اسمبلی خطاب میں دیے گئے اب اسے درست یاغلط سمجھنااپوزیشن کاکام ہے مگرسوالات کے جوابات نہ دینے کاشکوہ بالکل ہی لغو اورفضول تھااپوزیشن نہ جانے کس کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اورکیاکھیل رہی ہے؟ جو وزیراعظم کی ایوان میں موجودگی کافائدہ نہ اٹھا سکی اوربلاوجہ واک آؤٹ کرگئی جب اسے اپنی غلطی کااحساس ہواتو تیسرے روزوہی خورشیدشاہ اور وہی عمران خان ایوان میں دوبارہ تشریف لائے اور انکی جانب سے جوش خطابت کاجادوجگایاگیا یہی جادو اگر وزیراعظم کی موجودگی میں جگایاجاتاتواس کے وزن میں اضافہ یقینی تھا تیسرے دن عمران خان نے ایوان میں اپنے اوپر شوکت خانم کینسرہسپتال کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کادفاع توکیامگران کے بعدوزیردفاع نے ان پرمزیدالزامات لگائے جنہیں سننے کیلئے خان صاحب ایوان میں موجودنہیں تھے خان صاحب نے اپنی تقریرمیں یہ بات کرکے ہمارے ناقص علم میں بیش بہااضافہ کیاکہ اس اسمبلی کے ایک منٹ پرقوم کے سات لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں یہ قوم پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اوپرسے اس کے ایوان بھی اسے بیحدمہنگے پڑرہے ہیں خان صاحب کو ایوان کی قدروقیمت کااحساس ہے تووہ ایوان کووقت کیوں نہیں دے رہے؟اسی مہنگے ایوان سے خان صاحب اپنے تیس ساتھیوں سمیت کئی مہینے تک غیرحاضر رہے جبکہ انہوں نے اس غیرحاضری کے باوجود بھی مراعات اورمعاوضہ وصول کیا اس بربادقوم کاپیسہ لوٹنے اورضائع کرنے میں کسی نے بھی بخل سے کام نہیں لیااب بھی اگر خان صاحب وزیراعظم کے بعدخطاب فرماتے تواگلے دن اجلاس کی ضرورت ہی نہ رہتی یاپھراگلے دن اجلاس میں سیاسی رہنماؤں کی جلسوں سے مشابہ تقاریرکے علاوہ ملک وقوم کی بھلائی کے امورانجام دیے جاتے بہرحال پانامہ لیکس کااونٹ ڈیڑھ مہینے بعد بھی کسی کروٹ بیٹھتانظرنہیں آرہااسکی دوسری قسط اورعمران خان کی جانب سے آف شورکمپنی کے اعتراف کے بعدحالات گنجلک صورت اختیارکرگئے ہیں اوریہ اب ایسی الجھی ہوئی ڈور بن چکی ہے جس کاکوئی سراکسی کے ہاتھ نہیں آرہاعمران خان وزیراعظم کوطعن وتشنیع کانشانہ بناتے ہیں پیپلزپارٹی والے بھی وزیراعظم کے خلاف الزامات کی اڑتی دھول میں اپناچہرہ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ حکومتی وزراء اورمولانا فضل الرحمان ان دونوں کے لتے لینے میں لگے ہوئے ہیں کبھی سات سوالات کی بازگشت سنائی دیتی ہے تو کبھی سترکی ،یہ تعدادشائد آہستہ آہستہ بڑھ کرسات سوتک پہنچ جائے. رہ گئی قوم تو وہ ہکابکاہوکراس تمام صورتحال کاتماشادیکھ رہی ہے اب وزیراعظم کی تجویزکے مطابق پارلیمانی کمیٹی تک بات گئی ہے کچھ عرصہ کمیٹی کمیٹی کھیلنے میں صرف ہوجائے گااسی طرح رمضان کابابرکت مہینہ بھی شروع ہونے کوہے اس کے بعدلوگ عیدوغیرہ میں مصروف ہوجائیں گے اورپانامہ لیکس کی وجہ سے احتساب کی جوامیدپیداہوئی تھی وہ وقت کی گرد میں دب جائےگی حقیقی احتساب اس ملک میں نہ تواپوزیشن چاہتی ہے اورنہ ہی یہ حکومت کامطمع نظرہے موجودہ اپوزیشن پاکستانی تاریخ کی عجیب اپوزیشن ہے جسے عوامی مسائل ،امن وامان کی صورتحال ،ٹارگٹ کلنگ ،اغوابرائے تاوان ،بجلی اورگیس کی لوڈشیڈنگ ،دوائیوں اوراشیائے خوردنی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اوردہشت گردی سے کوئی سروکارنہیں بس اپنی پوائینٹ سکورنگ اور انا عزیزہے حکومت کی اصلاح ،سنجیدہ طرزِ فکر اورمثبت تنقیدکی بجائے اسکی دلچسپیوں کا مرکزومحور’’ اپوزیشن اپوزیشن کاکھیل‘‘ ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn