سردی کے موسم کی شروعات دھند سے ہوتی ہے، دھند کا موسم ایک زمانے میں بڑا رومینٹک کہلاتا تھا۔ صبح سویرے ہلکا ہلکا دھندلکا، دورتک پہلے ہوئے کھیتوں پر چھایا ہوتا، پتلی سی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے نہر کنارے اس موسم کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ فجر کی نماز کے بعد مسجد سے واپس آتے نمازی اور کھیتوں میں کام پر جانے والے کسان خراماں خراماں جارہے ہوتے، گھروں میں کام کرنے والی عورتین اپنے کام منہ اندھیرے شروع کرکے بچوں کو اسکول بھیجنے کی تیاری کرتیں، صحن میں بیٹھ کر چولھے کے آس پاس ناشتہ کرتے بچے جلدی جلدی اسکول کے لیے نکلتے، راستے میں موسم کی دھند کو سورج کی تپش سے صاف ہوتا دیکھتے اور قدرت کے نظارے کو اپنے معصوم ذہن میں محفوظ کر لیتے۔ شہر میں بھی یہ موسم اپنا سحر پھیلاتا خاص طور پر یونیورسٹی کے راستوں میں چلتے ہوئے اس دھند سے گذرنا بہت اچھا لگتا تھا۔
زمانے گذرے اور یہی دھند ایک وبال بن گئی۔ سردی کی آمد کے ساتھ ماحول میں خنکی بڑھتی ہے، ٹھنڈا پانی اچھا نہیں لگتا بار بار حلق خشک ہوجاتا ہے، خشک موسم ہے اور دھند کا وبال ، لگتا ہے نومبر دسمبر کے مہینے خشک موسم کے باعث اسموگ اور دھند کے موسم میں منتقل ہوجائیں گے۔ ہر طرف” اسموگ” کا چرچا ہے ، یہ اسموگ کیا ہے جی یہ لفظ ہم جیسے لوگوں کے دماغ کی اختراع ہے۔ اسموک یعنی دھواں، فوگ مطلب دھند اب اسموک اور فوگ سے ملکر اسموگ نام رکھ دیا گیا اس دھند کا جو آجکل تکلیف کا باعث بنی ہوئی ہے اب آپ پسند نہیں کرتے تو الف ہٹا کر سموگ پڑھیں یا اسموگ ، لیکن ہے یہ ایک مکمل نام جس کو لیتے ہی آجکل کے موسم کا تجزیہ ہو جاتا ہے۔ پورے پنجاب میں سندھ اور ملک کے کئی حصوں میں جزوی طور پر یہ موسم اندھا دھند چھایا ہوا ہے۔ترقی کے نام پر دھواں اگلتے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، ڈیزل کا استعمال جس کی وجہ سے گاڑیوں کے سائیلنسرز دھواں اگلتے ہیں ان سب نے مل کر دھند کو کثیف بنادیا ہے، صنعتی آلودگی سے یہ دھند زہریلی ہوگئی ہے اور اس طرح فضا میں پھیل گئی ہے کہ زندگیوں کے لئے نقصان دہ ہوگئی ہے اور صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں قصبوں پر چھائی اس سیاہی مائل دھند کو ” تیزابی دھند” بھی کہا جارہا ہے کیونکہ اس کے اثرات بہت منفی ہیں، آنکھوں میں جلن ، سانس لینے میں تکلیف ، دمہ اور دل کے مرض میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹریفک کے مسائل جنم لے رہے ہیں اور بہت سے جان لیوا ایکسیڈنٹ بھی ہوئے ہیں۔ کئی شہروں میں موٹر وے بند کردیے گئے، پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ قیمتی جانیں بے پرواہی کی وجہ سے جارہی ہیں۔
اسموگ کی شدت نے ایسی صورتحال اختیار کرلی ہے جو انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے اس صنعتی ترقی نے انسان کو زندہ رہنے کے لیے کھلا چیلنج کردیا ہے کہ اگر زندہ رہنا ہے تو فضائی آلودگی پھیلانے والے عناصر کو ختم کرنا ہو گا یا پھر آلودگی کے زہریلے اثرات سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے اسے یقینی بنانا ہوگا۔ اس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں عام شہری پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں، بلا ضرورت باہر نہ نکلیں، فیس ماسک استعمال کریں، گھر کے دروازے کھڑکیاں بند رکھیں، ہائی وے پہ گروپ کی شکل میں سفر کریں۔ پنجاب گورنمنٹ نے تو اسکول کے اوقات صبح نو سے تین بجے سہ پہر کردیے ہیں۔ دھواں اڑانے والی گاڑیوں کو روڈ پر نہ لانے دیا جائے، غیر ضروری چیزیں جلا کر دھواں نہ پیدا کریں مثلاً کچرا وغیرہ جلانا۔ یہ بھی ایک طرح سے احتیاطی تدبیر ہے۔ حکومت ایسی فیکٹریوں اور بھٹوں کے مالکان کو سزا دے جہاں سے کثیف دھواں نکل کر ماحول آلودہ کر رہا ہے۔ اس حوالے سے تمام صوبوں کو الگ الگ حکمت عملی بنانے کے بجائے قومی سطح پر مربوط حکمت عملی بنانی ہوگی۔ محمکہ موسمیات اور ماحولیات کے افسران کو اپنے دماغوں کی دھندصاف کر کے ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا تاکہ ہر سال اتنی بے گناہ جانیں محض اس دھند کے باعث نہ جائیں اور سارے کام چوپٹ نہ ہوں۔ اس مسئلے کو ملک گیر سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn