اس میں کوئی تشکیک نہیں کہ اس دھرتی پرتقریبا 1000 اقوام وملل ہیں،جن میں سے عیسائی قوم،مسلم قوم اور یہودی قوم قابل ذکر ہیں، یہودی قوم ایک لمبے عرصے تک رب کون ومکان کی ایک لاڈلی قوم رہی ہے،اللہ کی تمام طرح کی عنایات ان پر شامل رہی ہیں،اور اس نے کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر قیادت وسیادت میں بھی انہیں ہی سب سے حقدار بنایا تھا،لیکن جب انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی،اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بنا لیا، اس کی نازل کردہ کتابوں میں من مانی تحریف وتبدیل کی،انبیاء کرام کے ساتھ ناشائستہ سلوک کیااور ان کے علاوہ انہیں خوب ستایا،یہاں تک کہ ان میں سے کچھ کو قتل بھی کر ڈالا جن میں سیدنا زکریا اورسیدنا یحی علیہما السلام بھی شامل ہیں،حالانکہ اللہ انہیں ان کی باتوں پر سر تسلیم خم کر دینے کو کہا تھاتوان کے کالے کرتوتوں کی بنیاد پر اللہ تعالی نے ان سے تمام طرح کی نعمتیں سلب کر لیں،اور انہیں دنیائے انسانیت کے سب سے بدترین لوگ قرار دیتے ہوئے ان کی گردنوں پر لعنت و مغضوبیت کا طوق گراں ہمیشہ کے لئے ڈال دیا.
چنانچہ یہ دنیا بھر میں در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے،دیگر لوگ ان پر قہرمانیاں کرتے رہے اورانہوں نے ان کے لئے اس وسیع وعریض زمین کو تمام تر کشادگیوں کے باوجود بھی تنگ کر دیا،بالخصوص عیسائیوں نے یہودیوں کو دنیا میں کہیں بھی پناہ نہ لینے دی۔ وہ ان کے خون کے پیاسے تھے۔ انہیں ہزاروں کی تعداد میں اجتماعی قتل کیا۔ ان کے مکانات اور کھیت کھلیان جلا دیے، اور ان کے بچوں کو اسی طرح تہہ تیغ کردیا، جیسا کہ آج فلسطینی بچوں کو یہودی قتل کرتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ عیسائیوں نے 70ء میں وحشت وبربریت کے ساتھ انہیں یروشلم سے جلاوطن کردیا،1096ء میں شمالی فرانس اور رائن لینڈ میں ان کا قتل عام ہوا،1149ء میں الفانسو نے اسپین کے ایک یہودی فرقے بنام قراء کو حکومتی طاقت کا استعمال کرکے ملیامیٹ کردیا،1171ء میں فرانس کے بلائس کے مقام پر بیشمار یہودی مار دئے گئے،1180ء میں شاہ فلپ نے فرانس کے تمام یہودیوں کو جیل میں ڈال دیا اور ان کی جائدادیں اور مال و متاع ضبط کر لیا،1235ء میں باون نامی مقام پر یہودیوں کے ہاتھوں ایک عیسائی کے قتل کئے جانے کی وجہ سے یہودیوں کا قتل عام شروع ہو گیا،ان میں سے جو بھی سامنے ملا ذبح کردیا گیا1236ء میں انجو اور بائیٹو کے تین ہزار یہودیوں کو گھوڑوں کے سموں تلے کچل دیا گیا، 1243ء میں جرمنی کے برلن کے قریب بلٹز کے مقام پر ہزاروں یہودیوں کو زندہ جلا دیا گیا،1257ء اور 1267ء کی خانہ جنگیوں میں برطانیہ کے سات بڑے شہروں بشمول لندن و کیمبرج کے یہودی خاندانوں کا بالکلیہ خاتمہ کر دیا گیا، 1285ء میں میونخ کے 80 یہودیوں کو نذر آتش کر دیا گیا،1298ء میں مقدس روئی کو جلانے کے الزام میں رائنگن کے تمام یہودیوں کو قتل کر دیا گیا،1348ء میں جب پورے یورپ میں طاعون پھیل گئی تو انہوں نے یہودیوں کو اس کے مورد الزام ٹھراتے ہوئے یورپ بھر میں لاکھوں یہودیوں کو زندہ جلا ڈالا.
الغرض یہ کہ عیسائیوں نے یہودیوں کو ان کے کالے وہلاکت خیز منصوبوں کی وجہ سے اپنے اور اپنے سماج کے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے ان کا خوب قلع قمع کیا، انہیں اپنے ساتھ شہروں میں بسانے سے صاف انکار کردیا، اور انہیں دور جنگلوں اور بیابانوں میں آباد ہونے پر مجبور کردیا۔ عیسائی پادریوں کا حکم تھا کہ یہودی جب شہر آئیں تو اپنے کپڑوں پر امتیازی پٹی لگا لیں تاکہ وہ انہیں عیسائی سمجھ کر دھوکہ نہ کھائیں.
تاہم انہوں نے مذکورہ تمام تر مصائب و نکبات پر صبر کیا،اور یورپ اور دنیا کے دیگر خطوں میں اپنی بقاء کے لئے طرح طرح کی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیا،جن میں انہیں کامیابیاں بھی ملنی شروع ہو گئیں.
کمال ہے کہ صدیوں کے مظالم سہنے کے بعد 1606ء میں انہیں پہلی مرتبہ ایمسٹرڈم میں اپنا مذہبی اجتماع بڑے ہی تزک واحتشام کے ساتھ منعقد کرنے کا زریں موقع مل گیا،جس میں انہوں نے سرعام اپنے عقائد کا اظہار کیا اور اپنے مسائل حل کرنے کے لئے لائحہ عمل بھی مرتب کیا،1615ء میں ہالینڈ کی حکومت نے اپنے یہاں آباد کاری کی اجازت سمیت چند دیگر شہری حقوق بھی دیا،انہوں نے اپنے ہلاکت خیز منصوبوں کے تحت فرانس میں اپنے تجارتی مراکز قائم کیا اور چند بینک بھی کھول لیا،جنہوں نے کچھ ہی سالوں میں زبردست ترقیاں بھی کر لیں،یہاں تک کہ یہ 17ویں صدی کے اواخر تک میں اقتصادی طور پر فرانس کے سب سے مضبوط افراد میں شمار ہونے لگے،اس کا مشاہدہ کر کے اسپین اور پرتگال سے آئے ہوئے یہودیوں نے جو 1686ء تک اپنی بقاء کی خاطر عیسائیت کا دم بھرتے رہے،پل بھر میں عیسائیت کی قبا چاک کردی،علی الاعلان یہودیت کا نقارہ بجانے میں محو ہو گئے اور 1776ء میں فرانس میں مکمل شہریت کے حقوق حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے.
واضح رہے کہ اس کے علاوہ ہالینڈ،پرتگال،اسپین اور برطانیہ میں بھی یہودیوں کے لئے فضا سازگار ہو گئی،یہاں انہوں نے اپنے لئے میدان ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی نوآبادیات پر بھی توجہ مرکوز کردی اور ان میں آمد ورفت اور تجارتی روابط بڑھانا شروع کردیا،یہاں تک کہ 18ویں صدی میں روس پولینڈ اور جرمنی کے علاوہ تقریباً پورے یورپ میں ان کی پوزیشن مستحکم ہوگئی،مرور ایام کے ساتھ انہوں نے یورپ کے ایک بہت بڑے شہر لندن کو اپنی ریشہ دوانیوں کا مرکز بنا ڈالا،یہاں انہوں نے بہبود یہود نام کی ایک مجلس بھی قائم کر لی،اور اپنی سائنسی،طبی اور علمی صلاحیتوں کا برملا مظاہرہ کر کے اپنا لوہا منوانے لگے،اسی طرح انہوں نے اپنی لیاقتوں کی بنیاد پر امریکہ میں بھی اپنا بلند مقام حاصل کر لیا,ان میں تمام طرح کے شہری حقوق سے استفادہ کرنے لگے اور یوں وہ پہلی مرتبہ عیسائیوں کے استحصال،مذہبی تعصبات اور عوامی حقد سے محفوظ ہو کر اپنے درخشندہ مستقبل کا حسین خواب سجانے میں محو ہو گئے،مزید برآں انہوں نے اپنی جعل سازیوں کے طفیل روس و جرمنی میں بھی اپنا مقام حاصل کر لیا۔
قابل بیاں یہ ہے کہ 1880ء تک پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد محض 5 ملین تھی،ان میں سے 75 فیصد روس،پولینڈ اور بلقان کی ریاستوں میں پائے جاتے تھے، صرف 15 فیصد وسطی یورپ میں رہتے تھے،1882ء کے لگ بھگ میں انہوں نے یورپ کی طرف نقل مکانی شروع کر دی، چونکہ اس زمانے میں ان پر خوب مظالم ڈھائے جاتے تھے،اس لئے روتھ شیلڈ جو کہ ایک کٹر یہودی تھا، نے یورپ سے نکلنے والے اخبارات ومجلات میں ان کی حمایت میں بہت سے مضامین لکھا اور ان میں یہودیوں کی نقل مکانی کی توجیہ کرتے ہوئے ان کی زبردست مساعدت بھی کی،نتیجتاً یورپ کے عام لوگوں کو ان سے نہ صرف ہمدردی ہوئی،بلکہ انہوں نے ان کے ساتھ برتے جانے والے تعصب پر زبردست احتجاج بھی کیا اور یورپ کے گوشے گوشے سے ان کے لئے امداد جمع کرنے میں سرگرداں بھی ہوگئے،اور ان کے آبائی وطن فلسطین میں ان کی آباد کاری پر غور وخوض کرنے لگے۔
چنانچہ 19 ویں صدی کے اوائل میں جب خلافت عثمانیہ اس کے نااہل حکمراں کی وجہ سے پہلی عالمی جنگ کے اختتام سوء کے ساتھ بہت کمزور ہو گئی تو طاقتور ملکوں بالخصوص برطانیہ نے اس کو کئی جبری معاہدوں پر مجبور کردیا،جن میں سے غیر مسلموں کے لئے کچھ مراعات اور امتیازی قوانین بھی تھے،ان کا سب سے زیادہ فائدہ یہودیوں ہی نے اٹھایا، برطانیہ کے شہ پر روتھ شیلڈ اور اس کے احباب نے اپنے ایجنٹوں کے توسط سے یروشلم میں زمین خریدنا شروع کیا،پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے بہت سی زمین خرید لی اور اس میں برق رفتار سے مکانات تعمیر کر کے ان میں در بدر کی زندگی گزارنے والے یہودیوں کو جنگی پیمانے پر آباد کرنا شروع کردیا، ان کو مزید تقویت فراہم کرنے کے لئے برطانیہ نے 1839ء میں بیت المقدس میں اپنا قونصل خانہ تک کھول دیا، جس کا واحد مقصد زمانے بھر میں ستائے ہوئے یہودیوں کی خدمت گزاری اور بیت المقدس اور اس کے اطراف وجوانب میں انہیں دنیا کے مختلف علاقوں سے جمع کرنا بھی تھا،تاکہ ان کے لئے یہاں ایک یہودی مملکت کی تشکیل دی جاسکے.
اس ضمن میں جرمن فلسفی تھیوڈور ہرزل نے 1896ء میں ویانا سے ایک پمفلٹ شائع کیا،جس کا عنوان دی جیوش اسٹیٹ تھا،اس نے اس میں یہ پیش قیاسی کی کہ اگلے پچاس سالوں کے دوران ایک یہودی ریاست عالمی نقشے پرضرور وجود میں آجائے گی،پھر اس نے اپنی جانفشانی سے 1897ء میں پہلی صہیونی کانفرنس سوئزرلینڈ کے باسل شہر میں منعقد کی۔
جس کا لب لباب یہ تھا کہ یہود اپنے قدیم وطن فلسطین کے لئے فوری طور پر منظم ہو جائیں،یوں تو 1903ء میں برطانوی حکومت نے انہیں یوگنڈا میں 6000مربع میل کا ایک بے آباد علاقہ یہودی بستیوں کی تعمیر کے لئے پیش کیاتھا، تاہم انہوں نے اس کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور فلسطین ہی کے لئے بضد رہے،چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ 1909ء میں جب خلافت عثمانیہ کے حکمراں عبدالحمید اس دنیا سے دار بقاء کو کوچ کر گئے، تو گویا اسی دن یہودی سلطنت اسرائیل کی بنیاد جزیرۂ عرب کے قلب میں پڑ گئی،2؍نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جے بالفور نے سرکاری طور پر فلسطین کو یہودیوں کے لئے وطن کی حیثیت سے ہمیشہ کے لئے تسلیم کر لیا،اب کیا تھا، مرور ایام کے ساتھ یورپ میں ایسے لوگ کی بہتات ہو گئی جو یہود کی فلسطین منتقلی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرنے لگے،اس کے طفیل پوری دنیا کے یہودی مختلف خطوں کو خیرآباد کہہ کر اپنے آبائی وطن فلسطین جوق در جوق آنے لگے، یہاں تک کہ1914ء میں ان کی تعداد ایک تخمینے کے مطابق 85 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی اور اس تعداد میں آئے دن اضافہ ہی ہونے لگا، اس مصیبت سے فلسطینی عوام کافی پریشان ہو گئی اور اپنے وطن میں انسانیت کے دشمن یہودیوں کی آباد کاری پر قدغن لگانے کے لئے انہوں نے اقوام متحدہ میں عرضی بھی داخل کی لیکن ان کے حق میں کسی طرح کا کوئی بھی فیصلہ صادر نہیں ہوا،بلکہ 29؍نومبر1947 ء میں اسے دولخت کرنے کی خطرناک تجویز بھی رکھی گئی،پھر ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ اقوام متحدہ نے اپنی اس بھیانک تجویز کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 14؍مئی 1948ء کو فلسطین میں ایک یہودی مملکت بنام اسرائیل کے قیام کا اعلان پوری رعونت کے ساتھ کردیا.
اس کے نتیجے میں1948-49ء کی عرب اسرائیل جنگ رونما ہوئی،جس میں اسرائیل کو یورپ و امریکہ کی مساعدت سے واضح کامیابی حاصل ہوئی،اس نے اقوام متحدہ کی قراداد کے تحت دئے گئے علاقے سے زیادہ رقبہ بھی حاصل کر لیا اور 80000عربوں کو وہاں سے ہمیشہ کے لئے پیچھے دھکیل دیا،اس غاصب نے اتنے ہی علاقے پر اکتفاء نہیں کیا،بلکہ یہ اپنے توسیع پسندی کے عزائم پر تسلسل کے ساتھ گامزن رہا اور مزید زمین غصب کرنے کی منصوبہ سازی کرتا رہا،جس کا عملی نمونہ 1967ء کو عرب اسرائیل جنگ کی شکل میں مشاہدہ کرنے کو ملا،اسرائیل موجودہ شہنشاہ عالم امریکہ کی حمایت میں کمزور عرب ممالک پر زبردست طریقے سے پل پڑا اور محض چھ ہی ایام میں مصر سے سیناء، غزہ کے علاقے،اردن سے ضفہ عربیہ اور شام سے گولان کی پہاڑیاں اپنے قبضے میں کر لیا،اسی طرح جب اس نے بیت المقدس کے اندر دست درازی شروع کردی اورمسجد اقصی کو منہدم کر کے اس جگہ پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرنے کی سعی نامسعود کی اور یہودی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے کو دراز کردیا، تو اس کی وجہ سے عالم اسلام مشتعل ہو گیا،پوری دنیا اسرائیل مردہ باد کی آواز سے گونج اٹھی،اور مسلم نوجوان اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے سڑکوں اور شاہراہوں پر اتر آئے اور اس طرح عرب اور اسرائیل کے درمیان پھر ایک مرتبہ جنگ ہوئی،جس میں امریکہ اور عالم کفر نے اسرائیل کا دامے درمے قدمے سخنے تعاون کیا،اس کے علاوہ بھی اسرائیل نے فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں سبھوں میں شہنشاہ عالم امریکہ کادرپردہ ضرور ہاتھ رہا ہے،بلکہ اس سلسلے میں سچائی یہ ہے کہ امریکہ شروع ہی سے تمام جرائم میں اپنے کارندے اسرائیل کی بھر پور مدد کرتا رہا ہے، اوراسے بہترین سے بہترین اسلحات فراہم کرتا رہا ہے،تاکہ اسرائیل اس کے طفیل کشت وخون کا بازار گرم کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے،کمال تعجب یہ ہے کہ اس نے اسرائیل کے انسانیت کش جرائم کی کبھی مذمت تک بھی نہیں کی ہے،بلکہ الٹا ان پر پردہ داری کی ہے،ان کو جائز اور مبنی برحق بناکر عالم انسانیت کی آنکھوں کے سامنے بڑی طمطراقی کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس کی پیٹھ ٹھوکنے میں بھی کسی طرح کی شرمندگی کا احساس تک نہیں کیا ہے.
حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ 3000سال تک در بدر ہونے والے یہود آج انبیاء کرام کی مقدس سرزمین فلسطین پر ناجائز طریقے سے قابض ہیں،اور لاکھوں فلسطینی اپنے علاقوں سے باہر مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، گاہے بگاہے ان کا یلغار ہوتا رہتا ہے اور انہیں افرادی اور اقتصادی اعتبار سے کمزور سے کمزور کرتا رہتا ہے، دوسری طرف اقوام متحدہ جس کا قیام 1945ء میں قیام امن ہی کے نام پر ہوا ہے کی جنگ بندی کی قرادادوں کی موجودگی کے باوجود یہ غصب شدہ علاقوں سے نکلنے کا نام تک بھی نہیں لے رہا ہے،جسے دیکھتے ہوئے بھی پوری دنیا خاموش ہے.
غور طلب بات یہ ہے کہ اسرائیل مرور ایام کے ساتھ فلسطینیوں پر کیوں کر ظلم پر ظلم اور آئے دن اپنے رقبے کو وسیع سے وسیع تر کیے جا رہا ہے؟؟ اس کا دوٹوک جواب یہ ہے کہ یہود ایک عظیم ترین یہودی مملکت کے قیام کی خاطر یہ سب کر رہے ہیں،کیوں کہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ پوری دنیا پر قیادت وسیادت کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں اوریہ اسی وقت ممکن ہونے والا ہے،جب ان کا حقیقی مسیحا دجال ظاہر ہو جائے،اوریہ اسی وقت ظاہر ہونے والا ہے،جب گریٹر اسرائیل کا قیام عمل میں آجائے.
چنانچہ اسرائیل کے قیام کے اول روز ہی سے اس کی توسیع میں بدمست ہیں،کیونکہ یہ اس کے قیام سے پہلے ہی اس کی توسیع کاخواب سجا چکے ہیں،جس کی شرمندہ تعبیر کے لئے ان دنوں یہ اتاولے نظر آرہے ہیں اور پورے عالم انسانیت پر اپنی داداگیری کے قیام کی خاطر ایک گریٹر اسرائیل کی تشکیل میں محو ہیں،یقیناًگریٹر اسرائیل کے جملے سے تو دنیا آشنا ہے، تاہم اس بارے میں شاید انسان کی اکثریت اس بات سے آشنا نہیں ہے کہ آخر یہ گریٹر اسرائیل کیا ہے؟ گریٹر اسرائیل کہاں سے شروع ہے او ر کہاں پر ختم ہوتاہے،اس کو شاید کوئی نہیں جانتا،لیکن دنیا کے با شعور اور سیاست داں اور حکومت داں حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں.
سچائی یہ ہے کہ گریٹر اسرائیل ایک ایسے منصوبے کا نام ہے جسے1896ء میں تھیوڈر ہرزل نے بنایا تھا، اس خطرناک منصوبے میں یہ شامل ہے کہ اسرائیل کی سرحدیں نیل کے ساحل سے فرات تک جا ملتی ہیں.
اسی منصوبے کا ابتدائی مرحلہ تو 1948ء میں جزیرۂ عرب کے قلب میں برطانیہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کا قیام کر کے پورا کیا جا چکا ہے،جہاں تک اس کی تکمیل کی بات ہے تو اس کے لئے اول روز ہی سے یہودی کوشاں ہیں،اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے امریکہ کی پشت پناہی پر انہوں نے ماضی میں متعدد جنگیں بھی لڑی ہیں،جس کے نتیجے میں اسرائیل مصر، لبنان،اردن اور شام کے کچھ علاقوں پر تسلط بھی قائم کر چکا ہے.
موجودہ اسرائیلی حکومت اور اس کے کارندے اس کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو کس طرح کامیابی تک پہنچایا جائے اور صہیونزم کے بانیوں کی خواہشات اور خواب کے مطابق ایک گریٹر اسرائیل کا وجود عمل میں لایا جائے،اس کے لئے وہ تمام طرح کے سخت سے سخت اقدامات اٹھانے سے گریزاں نہیں ہیں,وہ اپنے پڑوسی ممالک سمیت اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو پاؤں تلے روندنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس تک نہیں کر رہے ہیں،ایسے اس کی خاطر وہ اس سے پہلے بھی بہت سے معاہدے کو پاش پاش کر چکے ہیں،جن میں مارچ 1979ء کا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ،30؍اکتوبر 1991ء کا قانا معاہدہ،13؍ستمبر1993ء کا اوسلو معاہدہ،28؍ستمبر 1995ء کا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ،15؍ جولائی 1997ء کا خلیل معاہدہ،23؍اکتوبر1998ء کا ریور ایکارڈی وے معاہدہ،4؍ستمبر1999ء کا شرم شیخ معاہدہ،اور 2008ء کا غزہ معاہدہ قابل ذکر ہیں.
موجودہ دور کو دیکھ کر اور گزرتے ہوئے حالات وواقعات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہودی یکے بعد دیگرے اپنی سازشوں اور حملوں کے باعث اس کوشش میں مصروف عمل ہیں کہ کسی بھی طرح گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے.
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ داعش کو اسی کام کے لئے وجود میں لایا گیا ہے،تاکہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال بد سے بدتر ہو جائے اور وہ نہایت کمزور بھی ہو جائے،تاکہ اسرائیل کو اس سے مزاحمت کرنے میں کوئی دقت در پیش نہ ہو،اور کچھ لمحوں میں پورے مشرق وسطیٰ پر مکمل طریقے سے قابض ہوجائے یہودیوں کا یہ خیال ہے کہ گریٹر اسرائیل کا قیام ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ خطے کی عرب ریاستیں تقسیم ہو کر بہت ساری چھوٹی ریاستوں میں تبدیل ہو جائیں،اوراس طرح اس خطے میں اسرائیل کی بالا دستی اور تمام چھوٹی عرب ریاستوں پراس کا مکمل کنٹرول ہو جائے،اس سلسلے کی ایک تازہ ترین کڑی 25ستمبر2017ء کو کردستان ریفرنڈم کی شکل میں مشاہدہ کرنے کو ملی،جس میں 97.1فیصد لوگوں نے اس کی آزادی کے حق میں ووٹ دیا تھا،ایک آزاد کردستان کو گریٹر اسرائیل کے لئے یہودی ناگزیر گردانتے ہیں،کیونکہ 2 لاکھ کرد یہودی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں،اس طرح جب وہ ایک آزاد ملک بن جائے گا تو اسرائیل اس کی مکمل حمایت کرے گا اور انہیں مسند اقتدار پر بیٹھا دے گا،جس سے اس کو شام،ترکی،سعودی عرب اور دیگر پڑوسی ممالک پر یلغار کرنے میں سہولت فراہم ہو جائے گی.
مذکورہ حالات و واقعات کو دیکھ کر ہمارے پردۂ اذہان میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ گریٹر اسرائیل کا قیام مبنی بر حقیقت ہے یا محض ایک افسانہ؟؟ اس کا جواب جب ہم یہود اور ان کی خطرناک کاوشوں کو دیکھتے ہیں تو ہماری نگاہوں کے سامنے منکشف ہو جاتا ہے کہ گریٹر اسرائیل کوئی فسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے،اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کا موجودہ سپر پاور امریکہ بھی اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا ہے،بلکہ وہ قرض لے کر اسرائیل کو سالانہ 40ارب ڈالر امداد دینے پر مجبور ہے،کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر اس نے اس کی مدد نہیں کی تو وہ لمحوں میں شہر خموشاں میں تبدیل ہو جائے گا.
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہود پوری دنیا بالخصوص مسلم دنیا بشمول مصر، یمن، بحرین، شام، لبنان، عراق، اور سعودی عرب پر تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں،ہر جگہ ان کی ناپاک منصوبہ بندیاں کارفرما ہیں،جس کے نتیجے میں مسلم ممالک کے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں جب کہ ملعون یہوداپنے ناپاک گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کے لیے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو انجام دینے کے لئے پرعزم ہیں، تاکہ وہ اقتصادی اور عسکری اعتبار سے کمزور سے کمزور تر ہو جائیں اور بعدمیں اسرائیل کسی بہانے سے ان پر پل پڑے اور ان پر ہمیشہ کے لئے قابض ہوجائے اور اس طرح وہ گریٹر اسرائیل کا روپ دھار اختیار کر لے،ایسے میں تمام مسلمانان عالم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی منافرت کی قبا کو چاک کردیں اور یہود سمیت ان کے تمام ہلاکت خیز منصوبوں کو ہمیشہ کے لئے خاک میں ملا دیں کیوں کہ اس میں بقاء اور دوام بھی ہے۔(یو این این)
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn