اسلامی جمہوریہ پاکستان نام ہے ہمارے ملک کا اور ہم فخر سے یہ نام لیتے ہیں۔ کیا ڈیرہ اسماعیل خان ہمارے ملک کا حصہ ہے، علاقہ ہے، شہر ہے؟ جی ہاں یہ بھی پاکستان ہے یہاں سے مشہور اسلامی جماعت کے نمائندے ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے ہیں۔ اسمبلی کے فلور پر اسلام پر بہت دھواں دھار تقاریر کرتے ہیں۔ خود بھی حلیے سے شرع کے پابند ہیں لیکن ووٹ لینے کے بعد اس علاقے کی فلاح وبہبود اور بھلائی تو چھوڑیے وہاں پلٹ کے کھانے کا بھی نہیں سوچتے۔ یہ لوگ سوچتے ہیں اگر یہ لوگ تعلیم یافتہ ہوگئے انھیں اچھے برے کی تمیز آگئی تو پھر انہیں منتخب کون کرے گا۔
آئے دن ان علاقوں سے ایک سے بڑھ کر ایک شرمناک خبریں آتی ہیں۔ جنھیں پڑھ کر، سن کر، ٹی وی پر دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتے ہیں کبھی معصوم بچوں پر کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ کبھی عزت تاراج کرنے کے بدلے مجرم کی بہن بیٹی کی سر عام عزت لوٹی جاتی ہے کبھی بوڑھے ماں باپ کے سامنے جوان لڑکی کو بے عزت کیا جاتا ہے کبھی رشتہ نہ دینے پر لڑکی کو جان سے مار دیا جاتا ہے اور کبھی باپ بھائی کے جرم کی سزا لڑکی کو ونی کرکے دی جاتی ہے۔ اپنے تعلیم یافتہ ہونے پر افسوس ہونے لگتا ہے کہ کاش زمانہ جاہلیت ہی ہوتا تاکہ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا نہ کہ بازاروں مین ننگا گھمایا جاتا۔ یہ آج کی خبر ہے کہ پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں سولہ سالہ لڑکی کو برہنہ کرکے بازار میں گھما نے کا واقعہ پیش آیا۔ ، تفصیلات کے مطابق ستائس اکتوبر کو مخالفین نے پانی بھر کر گھر لے جانے والی سولہ سال کی لڑکی کو بھرے بازار میں بے لباس کیا ا ور برہنہ حالت میں گلیوں اور بازاروں میں گھمایا، اس موقع پر لڑکی ایک گھنٹے تک مدد کے لیے پکارتی رہی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آیا۔ کسی میں ہمت ہی نہ ہوئی کہ لڑکی کو چھڑا لے۔ اب پولیس کا بیان سنیے، متاثرہ لڑکی کے بھائی نے تین سال قبل گاؤں کی ایک لڑکی سے تعلقات رکھے جس پر پنچائیت نے ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ کی ادائیگی کے بعد معاملہ رفع دفع کردیا مگر مخالفین کے بدلے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تھی انہوں نے بدلہ لینے کے لیے معصوم لڑکی کی عزت سر بازار نیلام کی۔ مقدمہ بھی درج ہوگیا ہے پولیس نے نو میں سے آٹھ ملزمان گرفتار بھی کرلیے جبکہ مرکزی ملزم سجاول مفرور ہے، لڑکی کی بے حرمتی کے خلاف پنجاب اسمبلی میں قرارداد بھی پاس ہو گئی ہے۔ کیا کوئی یہ بتائے گا کہ یہ قرار دادیں یہ گرفتاریاں اس لڑکی کی عزت واپس لے آئیں گی۔ پولیس کا نظام تو ہے ہی اتنا اعلیٰ کہ وہ سزا تو درکنار مک مکا کا سوچیں گے۔ مرکزی ملزم مفرور ہے یا مفررو کروایا گیا ہے تاکہ کیس کمزور ہو جائے ۔ ویسے بھی ایسے کام کاکوئی حل نہیں نکلتا، دو چار دن اخبار کی زینت بنتی ہے پھر اخبار ردی ہو جاتا ہے تو خبر بھی ردی کے ڈھیر میں دب جاتی ہے۔
کیا یہ لڑکیاں انسان نہیں ہیں ، یہ اپنے باپ بھائی کی حرکتوں کا تاوان یونہی ادا کرتی رہیں گی۔ تاوقتیکہ نظام میں تبدیلی نہ ہو۔ سب سے پہلے ان علاقوں میں تعلیم کو پھیلا کر لوگوں کے ذہنوں سے جاہلیت کی سیاہی کو صاف کرنا ہوگا ۔ پنچائیت کے نظام پر بھی نطر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، پنچائیت کے بزرگوں کو سمجھایا جائے کہ سزا دینے کے قانون کو بدلیں ، بے گناہ لڑکیوں کو بطور چارہ سزا دینے کے لیے استعمال نہ کریں۔ دہشت گردوں کے خلاف اتنے بڑےبڑے آپریشنز ہو رہے ہیں کیا اس دہشت گردی، اس بدمعاشی کے لیے کوئی آپریشن نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے علاقوں سے منتخب قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کو پابند کیا جائے کہ اپنے علاقے میں تعلیم عام کریں، تاکہ اس طرح کے شرمناک اور بے ہودہ واقعات نہ ہوں اور قانون کی پابندی کروائیں اور مجرموں کو سزائیں دیں تاکہ دوبارہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ تعلیم ایسی روشنی ہے جو ایسے علاقوں میں ظلم کے اندھیرے دور کر سکتی ہے۔ کاش ہمارے سیاستدان گندی سیاست کھیلنے کے بجائے عوام کی فلاح کا سوچیں کاش!
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn