ہر معاشرے کا چہرہ اسکے حالات ،واقعات اور پس منظر سے مل کر بنتا ہے ۔پاکستان ایک اسلامی ترقی پذیر ملک ہے ۔بچے آبادی کا صرف حصہ نہیں مستقبل بھی ہیں۔ کیا یہ مستقبل محفوظ ہے؟طاق میں گڑیاں رکھی ہیں
ننھی پریاںآنکھوں میں خواب سجائےتتلیاں پکڑ تی ہیں۔جگنو جیسی چمکتی آنکھوں والےننھے فرشتےسحر کا استعارہ بن کر دمکتے ہیں۔رنگ بر نگی کلیاں بہار کا نظارہ بن کر مہکتی ہیں۔زندگی کا اشارہ بن کر لہکتی ہیں۔
تیرے مرے خوابوں کاآنے والا کل ہیں۔یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔
بچپن ہر انسان کی زندگی کا خوش نما ترین دور ہے۔جس کی یادیں عمر بھر ہمراہ رہتی ہیں۔لیکن کبھی کبھی ان خوب صورت یادوں کو کوئی سفا ک لمحہ ڈراؤنا خواب بنا دیتا ہے۔یہ کلیاں اپنا رنگ کھو دیتی ہیں۔جگنو بے نور ہو جاتے ہیں۔ ان کو مسلنے والے بے حس انسان جس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اسُ کا اندازہ وکٹم شکار ہونے والے بچے ہی کر سکتے ہیں۔ ساری دنیا اس حوالے سے شدید تفکر کا اظہار کر رہی ہے۔بچوں کا جنسی استحصال کوئی نئی بات نہیں ساری دنیا میں اس قسم کے واقعات ہو رہے ہیں ساؤتھ افریقہ،انڈیا،زمبابوے،انگلینڈ اور امریکہ ایسے پانچ مملک ہیں جہاں شرح سب سے زیادہ ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ میں سے ایک لڑکی اور بیس میں سے ایک لڑکا جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں پاکستان میں بھی جس تواتر سے اس ظالمانہ فعل کے بارے میں خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق 2015میں جنسی تشدد کے3768 واقعات رپورٹ ہوئے اور بے شمار واقعات ایسے ہیں جوبد نامی کے خوف سےچھپا لئے گئے۔زیادہ تر واقعات میں بچے اور ان کے والدین بد نامی کے ڈر دباؤ اور خوف کی وجہ سے اپنے ساتھ ہو نے والی زیادتی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بچہ جو پہلے ہی اس سانحے سے گزر کر ذہنی اور جسمانی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تا ہے اسے مزید خاموشی اور بزدلی کا درس دیا جا تا ہے اور اگر ہمت کر کے احتجاج کی کوشش کریں تو معاشرہ منفی ردعمل دکھاتا ہے ۔ یہ پہلو مجرم کو مزید استحصال کی راہ فراہم کر تا ہے۔
ایک سروے کے مطابق متاثرہ بچوں میں سے اکثریت کی عمر گیارہ سے پندرہ سال تک ہو تی ہیں لیکن کچھ شواہد ایسے بھی ہیں کہ پانچ سال تک کے بچوں کو بھی جنسی ہوس کا نشانہ بنا یا گیا۔دور حاضر میں جب انسان پہلے سے زیادہ تہذیب یافتہ ہے ایسے واقعات میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہو تا جا رہا ہے شاید اس کی ایک وجہ awareness ہے۔جس کے منفی پہلو کو زیادہ لیا جا رہا ہے۔ایک وجہ ماں باپ کی گونا گوں مصروفیات بھی ہیں۔عورت یعنی ماں بھی معاشی تگ ودو میں مرد کے شانہ بہ شانہ ہے۔بچے کے ساتھ نشست ، گفتگو اور ایسے مسائل پہ اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔پہلے تو جنسی استحصال کا مفہوم واضح کر نا ہو گا۔بچےکےساتھ جنسی زیادتی، جنسی حملے،جنسی ہراسانی،جنسی عمل کی تر غیب دینا یا اشارے کر نا سب جنسی استحصال میں شامل ہےاور کبھی کبھی یہ حرکات بد ترین جنسی تشدد پہ متنج ہوتی ہیں ۔بچوں کوا س استحصال کا زیادہ خطرہ افراد خانہ رشتےدار اور ہمسائے وغیرہ سے ہو تا ہے بعض اوقات گھریلو ملازم بھی ملوث پائے جا تے ہیں ۔ معصوم بچوں پہ جنسی حملے اور زیادتی کے 88 فی صد واقعات گھر میں ہی ہوئے۔لڑکوں میں زیادہ خطر ناک ان کے اساتذہ اور اجنبی افراد ہو تے ہیں جب کہ معاشرے کے دیگر افراد جن سے بچوں کا رابطہ رہتا ہے جیسے دکاندار وغیرہ دونوں کے لئے یکساں طور پہ خطرے کا باعث ہو سکتے ہیں۔زیادہ تر زیادتی کر نے والے افراد اجنبی نہیں ہو تے لہذا پکڑے جانے کے خوف سے بچوں کا قتل تک کر دیا جاتا ہے ۔
قدامت پسند پاکستانی معاشرہ جس میں جنس کو ممنوعہ موضوع سمجھا جا تا ہے اب اجتماعی جنسی درندگی کی لپیٹ میں ہے ۔پاکستان کے شہر قصور میں تقریباً تین سو بچوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی طویل عرصہ تک کی جاتی رہی اور پھر ان کی ویڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل کیا جا تا رہا اس کے بعد سوات میں بھی ایسا ہی واقعہ دیکھنے میں آیا جہاں سترہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئ ۔پاکستان کی چالیس فی صد آبادی پندرہ سال سے کم عمر افراد پہ مشتمل ہے۔ ان بچوں کو جہاں اور مسائل کا سامنا ہے وہاں ایک گمبھیر مسئلہ جنسی استحصال بھی ہے۔ بچے کی تربیت تعلیم ہی صرف فرض نہیں ہے بلکہ ان ننھے فرشتوں کو تحفظ دینا بھی ہمارا فرض ہے۔ بچے جو بد قسمتی سے کسی جنسی درندے کی ہوس کا شکار بنتے ہیں ۔احساس جرم،نا امیدی ،خوف،تنہائی،اداسی اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔آہستہ آہستہ یہ بچے اپنے خول میں بند ہو نے لگتے ہیں اور ان کے یہ نفسیاتی مسائل بڑھتے رہتے ہیں ۔ اس ضمن میں ماؤں کا کردار اہم ہے بچوں کو اعتماد میں لیں ان میں شعور پیدا کریں انہیں بیڈ اور گڈ ٹچ کا فرق سمجھا ئیں انہیں بتائیں کہ تم انتہائی خاص ہو ۔ تمہارا بدن تمہاری ملکیت ہے۔ اگر کوئی اس کو چھونے کی کو شش کرے تو تمہیں انکار کا حق حاصل ہے۔ اگر کوئی تمہیں پر یشان کرے تو مجھے بتاؤ ۔ میں تمہاری مدد کروں گی۔ بچے کو شیشے کی گڑیا بنا نے کے بجائے حالات سے لڑ نا سکھائیں ۔ بچے میں خوف کی علامات نظر آئیں یا تنہائی پسندی تو اس کے پیچھے چھپے حقائق جاننے کی کو شش کریں ۔ پہلے تو بچوں کی حفاظت کا خیال رکھا جائے لیکن ان کی تر بیت بھی اس انداز میں کی جائے کہ وہ معاشرے کے اندر رہتے ہوئے ہر قسم کی زیادتی سے بچ سکیں ۔ بچے کو معاشرے سے کاٹ دینا مسئلے کا حل نہیں اس سے بچے میں اور دیگر نوعیت کے نفسیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ آپ کا بچہ زیادتی کا شکار ہو جائے تو اسُے ٹروما سے نکالنے کے لئے کسی نفسیاتی معالج کی مددلیجئے خاموشی سے دبانے کی کوشش نہ کی جائےتاکہ بچہ نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو نے سے بچ جائے اور معاشرے کا فعال شہری بن سکے بچے کو ہمت دیجئے۔
نۓ قوانین بنانے کی ضرورت ہے اور ان پہ عمل درآمد کی بھی۔اسی طرح ہمارا کل محفوظ ہو سکتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn