Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

کیا داعشی خلافت دفن ہوگئی ہے یا زندگی کی رمق باقی ہے؟ | حیدر جاوید سید

خبریں بہت زیادہ اچھی نہیں ہیں۔ بظاہر داعش کو شام اور عراق میں ذلت آمیز پسپائی اور شکست کا ذائقہ چکھنا پڑا ہے مگر کیا عراق اور شام کی حکومتیں داعش کے جنگجوؤں کی پھیلائی بربادیوں پر تعمیر نو کے ساتھ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھ پائیں گی؟ ہمیں سوال نظر انداز نہیں کرنے چاہیں بالخصوص اس صورت میں جب یہ دیکھائی دے رہا ہو کہ امریکہ اور اس کے عرب ٹو ڈی ایک نیا کھیل رچانے کے لئے سرگرمِ عمل ہو گئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورۂ سعودی عرب اور اس دوران وہاں کئے گئے اظہارِ خیال ہر دو کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ امریکہ کا نیا منصوبہ کیا ہے۔ یہی کہ کسی طرح عربوں کو گھیر گھار کر اس میدان جنگ میں اتارا جائے جو وہ ایران کے خلاف سجانے کی آرزو میں کروٹ کروٹ تڑپ رہا ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ بھی دیکھنا لازم ہے کہ کیا عراق اور شام سے داعش کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے ؟ ایسا ہے تو اس کے سرپرست ان خونی درندوں کو کہاں لے جائیں گے؟ ایک سادہ سا جواب معروف مغربی تجزئیہ نگار ماریا دبوویکوا نے دیا ہے۔ ان کے خیال میں ’’داعش کے کمانڈر اور جنگجو شام اورعراق سے نکل کر افغانستان، نائیجیریا اور لیبیا کا رخ کریں گے‘‘۔ جی ہاں یہی وہ ممالک ہیں جہاں انہیں عددی طاقت بھی مل سکتی ہے اور طویل دورانیے کا میدان جنگ بھی۔ البتہ ایک سوال اہم ہے وہ یہ کہ کیا عراق اور شام سے نکلتے وقت داعش پچھلے چھ سالوں سے لوٹی اور کمائی ہوئی دولت کا باقی ماندہ حصہ بھی نئے ٹھکانوں پر منتقل کر لے گی؟لگ بھگ 12 سے 16 ارب ڈالر کا تیل داعش نے ترکی کی دو آئل کمپنیوں کو فروخت کیا تھا۔ ان میں سے ایک تو ہندی مسلمانوں کے نئے محبوب خلیفہ اردگان کے صاحبزادے اور داماد کی ہے اور دوسری ترک امریکی سرمایہ کاروں کی مشترکہ ملکیتی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ نفرتوں کے جو بیج پہلے القاعدہ اور پھر داعش نے عراق اور شام میں بوئے ان بیجوں کی فصل کا کیا ہوگا؟ یہ درست ہے کہ داعش کے مرکزِ خلافت رقہ پر اب شامی فوج کا قبضہ ہے اور موصل جہاں البغدادی کی خلافت کا اعلان ہوا تھا عراقی فوج کے قبضے میں ہے لیکن سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اپنے مقبوضہ علاقوں سے محروم ہوئی داعش کا نظریاتی نیٹ ورک بہر طور دونوں ملکوں میں موجود ہے۔ امریکہ اگر وہابی شیعہ جنگ کروانے کے گھناؤنے منصوبے میں کامیاب ہوتا ہے تو داعش کا نظریاتی نیٹ ورک اس جنگ کے لئے کارآمد ہو گا۔
لگ بھگ ساڑھے چھ سال بعد عراق اور شام میں حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ شام کی حکومت داعش کے فتنے پر روس کے تعاون سے ہی قابو پاسکی ہے۔ اگرچہ اب امریکی بھی دعویدار ہیں کہ انہوں نے داعش کے خلاف بھرپور کارروائی کی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر روس کی سیاسی اور عسکری مدد بشار حکومت کو حاصل نہ ہوتی اور پھر حزب اللہ اورایران بشار کے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تو امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب کے مشترکہ چائلڈ داعش نے اس سے زیادہ بربادیاں عراقیوں اور شامیوں کا مقدر بنا دینی تھیں۔ المیہ یہ ہے کہ داعش کے جنگجو جس ملک (سعودی عرب) کی سرزمین سے عراق میں داخل ہوئے وہی آج بڑھ چڑھ کر دہشت گردی کے خاتمے کی دہائیاں دے رہا ہے۔ بہرطور ہمیں ان خدشات کو یکسر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ انخلا کی صورت میں دونوں ملکوں سے داعش کے غیر مقامی جنگجو نئے میدانوں اور ٹھکانوں کی طرف چلے جائیں گے۔ مگر ان کے مقامی ہم خیال بہرطور عراقی اور شامی سماجوں کا حصہ ہوں گے۔ اس نکتہ پر ٹھنڈے دل سے غور اور پھر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے اپنے سماجوں میں موجود ان غیر مسلح داعشیوں سے عراق اور شام کی حکومتیں کیسے عہدہ برا ہوں گی۔ یہ امکان بھی ہے کہ شام میں داعش کے مقامی حامی اپنا وزن جیش الشام (سابقہ النصرہ فرنٹ) کے پلڑے میں ڈالیں اور عراق میں القاعدہ نئے سرے سے منظم ہو۔ سو ان حالات میں دونوں حکومتوں کے امتحان کا ایک مرحلہ اب شروع ہو گا۔ ہمیں ایک بار پھر مغربی تجزئیہ نگار ماریہ دبوویکوا کے تجزئیے کو ایک نظر دیکھ لینا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں،’’کیا خلافتی انفراسٹرکچر ختم ہونے سے داعش کا وجود ختم ہوگیا یا پھر وہ جسمانی تباہی پر نظریاتی باقیات کے ذریعے قابو پالینے کی صلاحیت رکھتی ہے‘‘؟
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ داعشی خلافتیئے ہوں یا القاعدہ اور بشار مخالف جیش الشام ان سب نے جس خون خرابے والے کھیل کا آغاز کیا تھاا س پر ملنے والی کامیابیوں نے انہیں بدمست سانڈ بنا دیا تھا یہاں تک کے وہ اپنے دو آقاؤں سعودی عرب اور ترکی کے گلے بھی پڑے۔ کیا کمزور ملکوں کے وسائل ہڑپ کرنے کے لئے سازشوں کا دروازہ بند ہوگیا ہے ؟ امریکہ کے ہوتے ہوئے ہم میں سے کسی کو ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ وجہ یہی ہے کہ داعش کے ایک بڑے حصے کو امریکی افغانستان منتقل کرچکے ہیں۔ خود داعشی جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد لیبیا بھی پہنچی ہے۔نائیجیریا اور لیبیا کی ابتر صورتحال انہیں وہاں قدم جمانے اور جہادی و خلافتی چورن بیچنے میں مدد دے گی۔ ایک اور خطرہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا وہ ہے یورپی ممالک سے مسلمانوں کی نئی نسل کے ایک حصے کا جہادی رجحان۔ گو اس خطرے سے یورپی ممالک کوخود ہی دو دو ہاتھ کرنے ہوں گے مگر اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے داعشی جنگجوؤں کی ایک قلیل تعداد ہی سہی اگر واپس اپنے ملکوں میں پہنچتی ہے تو کیا ہوگا۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ کیا ترکی کے اردگان، خواب قیادت بکھرنے کے بعد نچلے بیٹھے رہیں گے۔ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ فی الوقت تو یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ مل بیٹھ کر بدمست اور منہ زور امریکہ کو سمجھائیں کہ وہ عرب و فارس کے درمیان جس وہابی شیعہ جنگ کا منظر نامہ تشکیل دینے کے لئے پھرتیوں کا مظاہرہ کر رہا ہے یہ سازش اگر کامیاب ہو گئی تو پھر جنگ ایک خطے تک محدود نہیں رہے گی۔ مگر یہاں خود عربوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ امریکہ اور فرانس وغیرہ کی اسلحہ ساز فیکٹریاں ان کی دولت سے چلتی ہیں۔ وہ اپنی دولت انسانیت کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں تاکہ دنیا مسلمانوں کے نئے چہرے سے متعارف ہو سکے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس