اسے وقت اور حالات کی ضرورت کہیں یا مجبوری فریقین کو بالآخر حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اپنے گھر کو معاف کرنے کے عملی اقدامات کی سمت بڑھنا پڑا ہے. امریکہ بہادر تاریخی مناظر میں مفادات کا اسیر ہے . اس کی دوستی مستقل ہوتی ہے نہ دشمنی… آج کل ہندوستان کے ساتھ تعلق خاطر کی چرچا ہے . اُس کے ساتھ سیاسی اور دفاعی ، معاشی اور معاشرتی معاہدے بھی ہیں وہ بطور پارٹنر افغانستان میں انتظامی سیٹ اپ کی تیاری اور پولیس اور فوجی تربیت میں تعاون بھی کررہا ہے . اس کے بدلہ میں امریکہ کی طرف سے عالمی سیاسی کردار کی معاونت بھی ہے علاقائی سطح پر چین کے بالمقابل قوت کے طور پر نمایاں کرنا اور ایشیائی قوت کے طور پر عالمی اداروں میں نمائندگی بھی ہے . سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت سے جوری سپلائر گروپ میں شمولیت کے لئے سرپرستی اور تعاون کے پہلو بھی شامل ہیں 249 یہ دوستی نہیں دونوں طرف سے موقع پرستی ، مفاد پرستی اور سوے بازی ہے . وہ اگر موقع پرست امریکی ہیں تو ادھر بھی ہندو بنیے کی ذہنیت ہے جو تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی… صاحبوویسے بھی ملکوں اور قوموں کے درمیان کوئی دوستی اور برادرانہ تعلقات نہیں ہوتے اپے اپے مفادات کا زیادہ سے زیادہ حصول اور نگرانی ہوتی ہے .
ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ہم نے ایک بادشاہ کو خادم حرمین شریفین کا خطاب دیا تھا ہم نے اُس کی خاطر ایک اور پڑوسی اسلامی ملک سے تعلقات خراب کئے جس نے ہم کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا لیکن آجکل ہمارے دونوں ملکوں کے ساتھ بھائی چارہ ٹھیک نہیں ابھی کل کی بات ہے ہمارے وزیراعظم جنہیں نا اہل قرار دیا گیا ہے . وہ بڑی گرمجوشی سے پوری تیاری کے ساتھ ریاض کانفرنس میں شرکت کیلئے گئے تھے مگر انہیں روایتی محبت تو کیا رسمی معانقے سے بھی نہیں نوازا گیا. تو کیوں ؟؟ یہ سب بدلتی ہوئی دنیا اور اُس کے مفادات کا نتیجہ ہے ، آئیں خود ہی اس پر غور و خوض کریں ہم اس سے زیادہ کچھ اور نوک قلم پر نہیں لا سکتے . البتہ اس پر صرف ہمارے پالیسی ساز اورکچھ مخصوص لوگ ہی مخصوص انداز میں مخصوص حدود و قیود میں بات کرسکتے ہیں. بہرحال …. آمدم بر مطلب.
ایک زمانہ تھا جب امریکہ کی ہم پر نظر کرم تھی. ہم اس خوش فہمی میں مبتلا تھے ہمارے سوا اس زمین پر دوسو سے زائد ممالک ہیں اسرائیل کے بعد کوئی اور امریکہ کے قریب نہیں حالانکہ اسرائیل کی ناجائز ریاست ، مشرق وسطی اور نہر سویز کی نگرانی کے لئے ضروری ہے تو ہمارا کردار ایک زمانہ تک بھارت پر امریکی سیاست اور معیشت کو زیر کرنے کے لئے ضروری تھا امریکہ اور دیگر سرمایہ دار ملکوں نے جنرل ایوب خان او رپھر یحییٰ خان کے مارشل لاؤں کی حمایت کی مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک چلی بھارت نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا اور پھر جنگ کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ساتواں امریکی بحری بیڑہ سنٹرل کمانڈ کے تحت بحر ہند میں گردش کرتا رہا . ہم خوش تھے کہ اب مشرقی پاکستان ہمارے بازو کے طور موجود رہے گا مگر … ساتواں بیڑا بحرہند میں ہی چہل قدمی کرتا رہا . اُس کی ذمہ داری بس اتنی تھی کہ .. کہیں بھارتی جارحیت مغربی پاکستان کو بھی متاثر نہ کرے ، کیونکہ نئے پاکستان کو افغانستان پر گرفت اور سوویت یونین کے انتشار اس میں سے تیل ، گیس اور معدنیات کے ذخائر سے مالا مال ریاستوں کو آزادر کرانے کے لئے استعمال کرنا تھا…. اور یہ کام ہم نے اسلامی بھائی چارے کے نام پر جہاد کے ذریعے کیا. لیکن تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ جب ہمارے حکمرانوں نے شراکت داری کی بات کی اور کوئلوں کی دلالی کا تدکرہ کیا تو بہاولپور کا حادثہ ہوگیا. افغانستان میں نئے شراکت دار سامنے آگئے . لیکن ہمارے مجاہدین نے شکست قبول نہیں کی ایک کے بعد دوسری جنگ آزادی میں مصروف ہو گئے . لیکن اب مفادات کا ٹکراؤ بھی شروع ہوگیا تھا او راُن کے زیادہ سے زیادہ حصول کو یقینی بنانے کی کوششیں بھی آغاز ہوئیں نئے اتحاد اور اتفاق سامنے آئے…. بھارت کے وہ حکمران جو ابھی تک اکھنڈ بھارت کے زعم میں مبتلا تھے وہ مینڈک کی طرح اچھلتے ہوئے نئے پلڑے میں جا کر بیٹھ گئے. جہاں مفادات بھی تھے اور بغض معاویہ بھی یعنی پاکستان کو کمزور کرنے اوراُس کے خلاف افغانستان کو سازشوں کا بیس کیمپ بنانے کی منصوبہ بندی بھی …. اس تناظر میں اب یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ سوات میں ہونے والی بغاوت ، فاٹا میں اٹھنے والی تحریک ، بلوچستان اورکراچی میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات اور بم دھماکوں کے پیچھے کون سی خفیہ ایجنسیاں متحرک اور فعال تھیں اور اُن کے مقاصد کیا تھے . کلبھوشن تو محض ایک مہرہ تھا . بہرحال بھارت نے بھی وہی پالیسی اختیار کی تھی جو ایک زمانہ میں امریکہ نے بھارت کو زیر کرنے کے لئے کی تھی . وہ اُس طرح افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا تھا جیسے ….. لیکن پھر وہ موڑ بھی آگیا جس میں امریکی پالیسی ساز بھی اس میں شامل ہو گئے . تاکہ پاکستان میں ابھرنے والی نئی علاقائی سوچ کو زاویہ ء معکوس کی سمت دی جائے اور وہی پاکستان دوبارہ بنایا جائے جو محض حکم حام پر صاد کرے کہیں کوئی گستاخی نہ ہو…
ظاہر ہے وقت بہترین اُستاد ہوتا ہے تو حالات سے بہتر پالیسی ساز کوئی نہیں ہوتا. پاکستان کو بھی اس ادراک کے اپنے علاقائی معاشی اور سیاسی مفادات کے تحت آزادانہ فیصلوں کی روش اختیار کرنا پڑی جو مفادات کی دنیا میں ناقابل قبول ٹھہری ایک نیا ٹکراؤ اور تصادم سامنے اایا جس نے عروج کے باوجود کسی کو فاتح نہیں بنایا بلکہ مفادات نے فریقین کو مفاہمت کا راستہ دکھایا. یہی کام دس سال پہلے ہو جاتا تو علاقائی بد امنی اورعدم استحکام ہوتا نہ معاشی تقصانات ہوتے نہ معاشرتی تباہی ہوتی فکری او رنظریاتی اختلافات یوں کھل کر سامنے آتے اور نہ مستقبل کیلئے اندیشہ ہائے گوناگوں برقرار رکھتے اسے بد قسمتی کہئے کہ …امریکی پالیسی سازوں نے پاکستان برائی کی جڑ کے بھارتی پراپیگنڈے کا اسیر ہو کر پاکستان کے ساتھ مفاہمت اور تعاون کے امکانات تلاش کئے ہیں اس پر مزید کام بھی جاری ہے امریکی وزیر خارجہ کی اسلام آباد آمد بھی ہے جس میں وہ عسکری ہی نہیں سیاسی قیادت سے بھی ملاقات کریں گے . گویا نئی افغان پالیسی پر عسکری اور سیاسی قیادت کو رام کرنے کی کوشش کریں گے. .. لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ افغانستان اب عالمی سیاسی اور معاشی مفادات کے ٹکراؤ کا مرکز بن چکا ہے اور یہاں بے شمار تصادم ابھرتے نظر آرہے ہیں جو عدم استحکام کا باعث بنے ہوئے ہیں امریکہ کو محض ’’یک رخی’’ نہیں ’’چومکھی‘‘ جنگ کا سامنا ہے جس میں ویت نام ایک بار پھر یاد آسکتا ہے لیکن امریکہ پر جو ذہنیت حکمران ہے وہ افغانستان اور اُس کے ارد گرد موجود وسائل کے لئے دنیا کو نئی جنگ میں بھی دھکیل سکتی ہے جس کے معاشی روپ کی ابتدا ہو چکی ہے …
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn