Qalamkar Website Header Image

افتادگانِ خاک کی بھی کیا قسمت ہے؟ | حیدر جاوید سید

لگ بھگ نصف درجن موضوعات سامنے میز پر ”رکھے“ ہیں۔ دامادِاعظم جاتی امرا شریف سے نیب کے نئے چیئرمین جسٹس جاویداقبال تک کی بہت ساری باتیں ہیں۔ پاکستان میں کچھ لوگوں کی لاٹری یوں نکلتی ہے کہ جس عمر میں انہیں اپنے لئے قبر کا ڈیزائن پسند کرنا چاہیے اس میں کوئی سرکاری عہدہ مل جاتا ہے۔ 70سال سے چندماہ کم کے جسٹس جاویداقبال اب چیئرمین نیب ہیں۔ سب کہو سبحان اللہ۔ داماداعظم جاتی امرا شریف نے میاں نوازشریف کے کامریڈ چنگ چی نواز گویرا بننے کی راہ کھوٹی کردی۔ فقیر راحموں کی پریشانی یہ ہے کہ اپنے کامریڈ مرشد سید امتیاز عالم گیلانی بہاول نگری کا کیا بنے گا؟ آرمی چیف کہتے ہیں سکیورٹی بہتر کردی ہے اب اکانومی مضبوط بنائی جائے۔جناب زرداری‘ عمران خان نے سندھ پر 17حملوں کے اعلان کے جواب میں ان دنوں خیبرپختونخوا کے تیسرے دورے پر ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان جہانگیر ترین کے انتخابی گوشواروں اور زرعی آمدنی کے حساب میں مصروف ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ غیرملکی قرضے 78,05,78ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ معاشی ماہرین ایک بحران کے بھاگتے ہوئے آنے کی ”نوید“ دے رہے ہیں۔ ان خبروں کے بیچوں بیچ کی خبر یہ ہے کہ سینٹ آف پاکستان نے حکومتی مخالفت کے باوجود نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کے خلاف قرارداد منظور کرکے کالک دھونے کی کوشش کی مگر یہ نہیں بتایاکہ کنواں پاک کیسے ہوگا۔ مندرجہ بالا باتوں اور خبروں کےلئے مرچ مصالحہ موجود ہے مگر طالب علم کے دل و دماغ پر فارسی کے سدابہار شاعر حافظ شیرازیؒ اور مرشد کریم بلھے شاہؒ دستک دے رہے ہیں۔ ایسے میں سیاست ویاست پر خاک لکھا جائے۔ روز ہی تو لکھتے ہیں۔ کوئی تبدیلی؟ سادہ سا جواب ہے افتادگان خاک کے دن ابھی نہیں بدلنے والے۔ دولت مندوں کے مختلف طبقات نے روزمرہ کی زندگی کے لئے اتنے سنگین مسائل پیدا کردیئے ہیں کہ اب بندہ بال بچوں کے لئے رزق تلاش کرے یا سڑکوں پر سرپھٹول۔ وہ دن گئے جب اس ملک میں سیاسی کارکنوں کا دوردورہ ہوا کرتا تھا۔ یہ سیاسی کارکن تھڑوں پر مکالمہ کرتے ملتے۔ مقامی و عالمی سامراج کے خلاف مستانہ وار جدوجہد کرتے۔ سیاسی اختلافات کے باوجود سماجی تعلق کا حسن قائم تھا اب تو ٹھیکیداری سسٹم ہے۔ اس سسٹم میں کمیشن چلتی ہے اخلاقی اقدار کی پاسداری ہرگز نہیں ہوتی۔ سو فی الوقت زندگی‘ سیاست‘ کاروبار اور دینداری سب پر ہُو کا عالم ہے۔ مہنگائی نے مت مار رکھی ہے۔ ویسے خدا لگتی بات ہے پچھلے 9برسوں کے دوران پنجاب کا وہ ایک منصوبہ بتادیجئے جو کرپشن سے پاک ہو اور اس صوبے کے لوگوں پر مستقل بوجھ بھی نہ ہو۔ ملتانیوں کو میٹرو بس کے بعد لال بس مبارک ہو انشاءاللہ اس کا خسارہ سبسڈی کی صورت میں ہماری ہڈیوں سے کشید کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  رن آؤٹ

نہ چاہتے ہوئے بھی تمہید کچھ طویل ہوگئی۔ کیا کریں چار اَور کی صورتحال سے لاتعلق ہوکر بھی نہیں رہا جاسکتا۔ ہمارے ممدوح پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایک بار پھر سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے متاثرین کے لئے انصاف مانگا ہے۔ کاش مخدوم سجاد حسین قریشی مرحوم و مغفور زندہ ہوتے ان کی خدمت میں حاضری دے کر عرض کرتے سئیں دعا کیجئے اﷲتعالیٰ بالادست طبقات کو توفیق دے کہ وہ انصاف کریں۔ یہ سطور لکھ رہا تھاکہ اطلاع ملی کہ لاہور کے تھانہ فیصل ٹاﺅن کی بلڈنگ میں آگ لگ گئی۔ تھانے میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا تفتیشی ریکارڈ بھی رکھا ہوا تھا۔ شریف برادران پر آگ کتنی مہربان ہے۔ ہر قسم کے ثبوت جلا دیتی ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر وہ معاملہ جو شریف خاندان کے لئے مصیبت بن سکتا تھا آگ میں جل کر راکھ ہوا۔ کیا یہ اتفاق فونڈری کا جن ہے جو آگ لئے پھرتا ہے اور ہر ثبوت خاکستر کردیتا ہے۔ لاہور پولیس افسران تھانہ فیصل ٹاﺅن پہنچ گئے ہیں ان میں کوئی پیر سپاہی تو ہے نہیں کہ آگ میں سے کاغذوں کو زندہ برآمد کرلے۔ جناب قادری لے لیں انصاف اگر ملتا ہے تو۔

مرشد کریم حضرت سیدی بلھے شاہؒ فرماتے ہیں ”محبت وہ جذبہ ہے جو بربادیوں کو روک سکتا ہے“ پر یہاں تو ہرطرف تعصب کا ”مرحبا“ جاری ہے۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ ان کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ مرشد جب کوئی چیز خالص دستیاب نہ ہوتو محبت کیسے پروان چڑھ سکتی ہے؟ یہاں حالت یہ ہے کہ ایک نفسیاتی مریض قومی اسمبلی کے ایوان میں دستور سے منافی تقاریر کرتا ہے اور نون لیگ کے ارکان ڈیسک بجاکر اسے داد دیتے ہیں۔ ہارے‘ پستی و غلامی کہ بندہ اتنا گرتا ہے کہ نالہ لئی کو بھی چناب لنک نہر قرار دیتا ہے۔ طبقاتی نظام کا حسن یہی ہے اس میں بچہ جمہورا ٹائپ لوگوں کی بہتات ہوتی ہے۔ وہی ہرسُو دندناتے پھرتے اور سب اچھا کی صدائیں لگاتے ہیں۔ پاکستانیوں کی بھی کیا قسمت ہے دولے شاہ کے چوہوں جیسے لیڈر ملے۔ جن بحرانوں‘ مسائل اور مشکلات کا 22کروڑ لوگوں کو سامنا ہے ان سے عہدہ برآ ہونے کی اہل قیادت دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ دعوے کرنے والوں کو چھوڑئیے ان کا کیا ہے۔ ہمارے پاس ہتھیلی پر سرسوں جمانے اور جھٹ سے شادی کرنے والے ماہر دستیاب ہیں مگر ان کی ساری صلاحیت اپنی ذات کے لئے ہے۔ قوم ویسے یقین رکھے نئے چیئرمین نیب جسٹس جاویداقبال کچھ بھی کہتے ہیں ہونا ہوانا کچھ نہیں۔ لاریب کرپشن بلا ہے بلکہ بری بلا ہے لیکن معاشرے کا کون سا شعبہ اس سے محفوظ ہے۔ جب تک ادارے سیاسی و حکومتی اثر سے محفوظ بنانے کی حکمت عملی وضع نہیں کی جاتی یہاں یہی کچھ ہوگا جو ہورہا ہے۔ بس اپنی اپنی پسند کے لیڈر کے لئے تالیان پیٹتے چلے جائیے۔ سانحات سے سبق نہ سیکھنے کا مرض اجتماعی ہے۔ کسی شوق کا ہمارے سماج میں جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے تو وہ تاریخ کی مسلمانی فرمانے کا شوق ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس حقیقت کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اگر سماجی حسن اور امن کو قائم رکھنا ہے تو پھر ہمیں دوسروں کے گریبانوں‘ گھروں‘ عقیدوں اور قبروں کا حال بیان کرنے کے مرض سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ ہمارے صاحب علم دوست تابش وزیر کہتے ہیں ”کاش ہم دوسروں کو اچھا مسلمان بنانے کے جہاد سے چند لمحات نکال کر خود اچھا مسلمان بننے کی کوشش کریں۔ ایسا ہوجائے تو 90فیصد مسائل اور تعصبات زندہ دفن ہوجائیں گے“۔ تابش وزیر کی بات بلکہ یوں کہیں تجویز سوفیصد درست ہے لیکن اس کا کیا کریں کہ تعمیر کے کج اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔ حافظ شیرازیؒ کہتے ہیں ”میخانے کی دہلیز پر کم ظرف کا کوئی کام نہیں“۔ یعنی جس کا میخانے کی دہلیز پر کوئی کام نہیں وہ ہمیں دین و دنیا کے اسرار و رموز سمجھانے پر بضد ہے۔ مروجہ سیاست‘ نظام اور طبقاتی جمہوریت کی حالت یہ ہے کہ بہت سارے دوست آج کل سخت اور کڑے احتساب کے نعرے مارتے پھرتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ حضور یہ سب کرے گا کون تو جواب میں ایک لمبی تقریر سننے کو ملتی ہے۔ ان خدا کے بندوں سے کوئی پوچھے کہ پہلے ”جو“ چاربار سخت گیر احتساب کے نعرے مارتے ہوئے ”تشریف“ لائے تھے انہوں نے کیا تیر مار لیا سوائے اس کے اپنے سے پچھلوں سے بھی بدتر قسم کی مخلوق اس ملک پر مسلط کردی۔ مصنوعی قیادتوں نے اپنے مفادات کی حد سے آگے دیکھنے کی کبھی زحمت ہی نہیں کی۔ شریف خاندان زندہ مثال ہے۔ پچھلے 35برسوں میں ان کے خاندانی اثاثے جتنے بڑھے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اسی تناسب سے بڑھ گیا۔ ایسے میں کڑ ااحتساب کون کرے گا ۔عوام کے ذہنوںمیں سوال بڑی شدت سے آرہا ہے مگر عوام کو اس سے غرض نہیںکہ کرپٹ لوگوں کا احتساب کون کرے گا انہیں تو بے رحم احتساب ہوتا نظر آنا چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے:  کھیلن کو مانگے چاند

بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس