Qalamkar Website Header Image

سڑکوں اور موبائل سروس کی بندش پر جوابِ شکوہ | سیدہ قراۃ العین حیدر

آغاز اس شکوے سے کرتے ہیں جس کے بعد یہ جوابِ شکوہ لکھنے کی ضرورت پڑی.

"آپ کے عقیدے کا احترام اپنی جگہ لیکن اگر آپ کے عقیدے کی وجہ سے میرے راستے کنٹینر لگا کے بند کر دیے جائیں گے، مجھے گھر میں محصور کر دیا جائے گا، میرا موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی جائے گی کیبل پر تفریحی پروگرام بند کروا دیے جائیں گے تو مجھے آپ کے عقیدے کی وجہ سے میری نجی زندگی پر مداخلت پر اعتراض ضرور ہوگا.”

اس شکوے کے جواب میں اپنے عزیز اور محترم ہم وطنو کی توجہ کچھ حقائق کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے.

ہمیں احساس ہے کہ آپ ہر سال ان دنوں میں اس مشکل سے گزرتے ہیں اور آپ کے بہت سے اہم کام ان دو دنوں میں نہیں ہو پاتے.
اس پر معذرت خواہ ہونے کے بجائے آپ سے کچھ ایسی باتیں کرنا چاہتے ہیں جو کہ ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ایک سرزمین پر رہتے ہوئے سوچنی چاہیے. اور غور کرنا چاہیے کہ اس مادر وطن کا اصل مسئلہ کیا ہے.
بظاہر جو مسئلہ اس شکوے میں نظر ارہا ہے اس کی وجہ عزاداری اور عاشور معلوم ہوتی ہے.
اگر اس وقت دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو شاید ہی کوئی ایسی جگہ ملے جہاں عزاداری اور عاشور کے پروگرامز نہیں ہو رہے . چھوٹے سے کر وسیع پیمانے تک یہ تحریک دنیا کے ہر خطے میں اور گھروں میں جاری ہے اور عاشور پر سڑکوں پر نظر آئے گی. لیکن رُک کر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے نجی زندگی صرف پاکستان میں ہی کیوں متاثر ہوتی ہے.
اگر تو اس عمل سے کسی کی زندگی ہر برے اثرات پڑتے ہیں اور یہ کوئی قابلِ اعتراض چیز ہے تو گوروں کو اس پر زیادہ اعتراض ہونا چاہیے اور انہیں اپنے ممالک میں اس سب کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیے کیونکہ ان کا دور دور تک اسلام یا اس کی شخصیات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ وہ کوئی زحمت برداشت کریں. لیکن وہ اپنے ممالک میں اس کی اجازت دیتے ہیں اور آپ انٹرنیٹ کی مدد سے زرا سی تحقیق کرکے خود بھی اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں.

یہ بھی پڑھئے:  انعام رانا کو بھی جینے دو

اب آئیے وطن عزیز کی طرف، وہ ملک جس کی بنیاد لا اله الا الله پر رکھی گئی سب سے زیادہ اسی ملک کو لا اله کی بقا کی خاطر جدوجہد کرنے والے انسان کے ذکر سے خطرہ ہے.

جن کے اباؤاجداد نے اس ملک کو حاصلِ کرنے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں گھر اور جائیدادیں چھوڑ کر اس سرزمین کی طرف ہجرت کی تاکہ وہ اپنی مذہبی رسومات آزادی سے سرانجام دے سکیں آج وہ پولیس کے حصار میں اور کنٹینرز سے بند علاقوں میں اپنی رسومات ادا کر رہے ہیں.

کیا ہوگیا کہ ایک مسلمان ملک میں ہی مسلمانوں کی رسومات کو خطرہ لاحق ہو گیا. جبکہ یہ ملک بنانے میں یہ سب مسلمان شامل تھے اور ایک دوسرے کی رسومات میں شرکت کرتے تھے.
اگر خطرہ عاشور اور عزاداری ہے تو جناب یہ تو چودہ سو سال سے چلی آ رہی اس سے تو انسانیت کا کوئی نقصان نہ ہوا آج تک. آپ کو ان سارے مسائل کی اصل وجہ سمجھنے کے لیے اس کو پہچاننا ہوگا جس کو اس تحریک سے نقصان ہوا ہے، ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا. جو یہ چراغ پھونکوں سے بجھانے کی کوشش میں اس ملک کے گلی کوچوں کو خون سے رنگین کر رہا ہے.

یہ بھی پڑھئے:  پاکستان کی بیٹی اور قندیل بلوچ | حسنین ترمذی

اس عاشور جب آپ گھر میں محصور ہوں اور نہ نیٹورک آ رہا ہو نہ انٹرنیٹ تو غور کیجئے گا کے مسئلے کی اصل وجہ یہ عقیدہ ہے یا وہ عقیدہ جس کی وجہ سے آپ کا ملک پچھلی کئی دہائیوں سے خون میں ڈوبا ہوا ہے. جس کی وجہ سے نہ تو آپ کے سکول محفوظ ہیں نہ مسجدیں اور نہ بازار.
آپ دو دن پہ پریشان ہوجاتے ہیں جب کہ آپ کا اصل دشمن آپ کا حال اور مستقبل خون میں ڈبونے کی کوشش میں لگا ہے. اور کافی حد تک کامیاب بھی ہے.
آپ کا محصور ہونا نیٹ ورک کا نہ آنا اس کی کامیابی کی ایک جھلک ہے.
سوچیے گا کہ یہ کنٹینر ان کے ڈر سے کھڑے کیے جاتے جو اپنے عقیدے کے اظہار کے لئے اپنا خون بہانے پر یقین رکھتے ہیں یا ان کی وجہ سے جو آپ کے بچوں اور جوانوں کے گلے کاٹنے کا عقیدہ رکھتے ہیں.
اس عاشور سوچیے گا!

جہاں تک تفریحی پروگرامز کس تعلق ہے تو اس کے لیے آپ ایڈوانس میں موویز ڈاؤنلوڈ کر کے اپنا ٹائم پاس کرنے کا سامان کرسکتے ہیں. اور یہ بھی نہ ہو تو اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کوالٹی ٹائم دے سکتے ہیں. دو دن کی تو بات ہے.

حالیہ بلاگ پوسٹس