کبھی تاریخ اور ممتاز شخصیات کی آپ بیتیوں کے اوراق الٹتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہر دور میں جہل کاشت کرنے والے کیسے دندناتے پھرتے تھے اور ان کے فتوؤں کے ڈر سے لوگ زبان نہیں کھولتے تھے کہ کہیں جنت سے محروم نہ ہوجائیں۔ حسین بن منصور حلاجؒ کو جب فتویٰ گروں سے پالا پڑا تو کہہ اٹھے ”خواہش نفسانی سے بندھے غول بضد ہیں کہ دنیا میں وہ رہبری کے لئے چُنے گئے ہیں اور جنت دوزخ بھی ان کی مرضی سے تقسیم ہوگی۔ حسین نے ان کی باتوں کا ٹھٹھ اڑایا کہ یہ باتیں ایسی ہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جس کے دل میں انسانوں سے محبت اور ”اُسے“ پانے کا چراغ روشن نہیں ہوتا وہ یہاں دھکے کھائے گا وہاں دھتکارا جائے گا“۔ حسین بن منصور حلاجؒ یوں یاد آئے کہ پچھلی شب پشتو زبان کے عظیم شاعر‘ مبارز اور فلسفی غنی خان مرحوم کو پڑھ رہا تھا۔ غنی خان کے کلام کا اردو ترجمہ (یہ منظوم ترجمہ ہے) مشتاق علی شان نے کیا ہے۔ کلام غنی کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں کہ غنی خان نے جس عہد میں مصری شعور کی بدولت فرسودہ روایات اور مُلّاگیری کو سماج پر بوجھ قرار دیا اس عہد میں حالت یہ ہوچکی تھی کہ مکتب (سکول) کی تعلیم کو کھلا کفر قرار دیا جارہا تھا۔ شان نے اُس زمانے کے پشتون معاشرے میں زبان زدعام ایک شعر کا بطور حوالہ ذکر بھی کیا:
سبق چی دمدر سے وائی‘ پارہ د پسیے وائی
جنت کی یہ زے نہ وی دوزخ کی بہ گھسے وائی
علم و عمل اور شعور دشمنی سے عبارت پشتو کے اس شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہے ”جو مدرسے یعنی سکول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ پیسوں کے لئے یہ کرتے ہیں۔ جنت میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی بلکہ وہ دوزخ میں دھکے کھائیں گے“۔ زمانے اور لوگوں نے بہت سارا بلکہ بہت زیادہ سفر طے کرلیا۔ دنیا کے عملیت پسند دوسرے جہانوں کی کھوج میں مصروف ہیں مگر مسلم سماج کی بدقسمتی ہے کہ اس میں ایسے ”دانا“ آج بھی وافر مقدار میں دستیاب ہیں جن کے خیال میں جدید تعلیم بے راہ روی لاتی ہے۔ نظام الدین طوسی مرحوم کے ترتیب دیئے نصاب تعلیم میں اپنے اپنے عقیدوں کے مبنی برحق ہونے کی دلیلوں سے عبارت چند کتابوں کے اضافے کے ساتھ پہلے ہزار سال کے دوران ایک بھی نیا مضمون داخل مدرسہ نہیں ہوا۔ صاحبان علم و دانش کی تشکیل میں مدارس کا کردار کتنا ہے۔ ایک ہزار سال کی تاریخ میں چند درجن لوگ اور وہ بھی وہ جنہوں نے روایات سے بغاوت کرکے عصری علوم سے استفادہ کیا۔ ذہن کی بند کھڑکیاں کھولیں‘ تازہ ہواؤں سے سرشار ہوئے اور دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیاکہ ”دماغ کو عقیدہ کا قلعہ بنانے کے بجائے مکالمے پر آمادہ کرو تاکہ اپنے عہد کی ترقی میں حصہ ڈال سکو“۔
غنی خان کا عہد پشتون سماج پر مذہبی انتہاپسندی کی یلغار کا عہد تھا۔ پشتو کا یہ عظیم شاعر فکری اعتبار سے حلاجؒ‘ سرمدؒ‘ رحمن باباؒ اور ان جیسے انتہاپسندی کے مخالف صوفیاءسے متاثر ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ایک سچا پشتون وہی ہے جو حریت پسندی‘ وطن پرستی‘ انسان دوستی‘ علم کی محبت اور اعلیٰ انقلابی روایات کا امین ہو اور انتہاپسندی کی ہر قسم کا کھرا ناقد۔ ”میں موج صبا ہوں‘ تازہ ہوا کا جھونکا‘ باغ و صحرا سے گزرتا ہوں‘ برق بادوباراں ہو یا کہ آگ‘ ہر حال میں رواںدواں ہوں‘ ہوا کا راستہ کون روک سکتا ہے‘ جو ٹھہر جائے اسے ہوا کون کہتا ہے“۔ غنی خان ہی کہتے ہیں ”میرے وطن! ہمارے ہوتے ہوئے کس میں مجال ہے کہ وہ تلوار بدست چڑھ آئے۔ کبھی ایسا ہوا تو دیکھنا تیرے فرزند ساری راحتوں کو تیاگ کر اپنے خون سے آزادی کی شمع کو روشن رکھیں گے۔ وقت بتائے گا تیرے دشمنوں کو کہ تیری کوکھ سے کیسے کیسے فرزندوں نے جنم لیا“۔ ”سیم و زر نہیں عاشق تیری تلاش میں نکلتے ہیں۔ ان کا مقصد تجھے پانا ہے۔ موت کا جب دل چاہے چلی آئے‘ ہمیں منہ موڑنے والوں میں سے نہیں پائے گی“۔ غم کو قہقہوں میں اڑانا ہی زندگی ہے۔ غم ذات ہو یا جہاں کا غم۔ ”جب میرے دشمن کے کاندھے پر بندوق لٹکی ہوگی تو میرے ہاتھ میں قلم ہوگا۔ علم کے حروف ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ بندوق کا زخم بھر جاتا ہے‘ جہالت کے گھاؤ نہیں بھرتے۔ غنی کو علم محبوب ہے۔ تلوار یا بندوق دشمن کے مقابلہ کے لئے اس وقت اٹھاتا ہوں جب اس کے قدم میرے وطن پر آئیں“۔ ”لوگ بھی عجیب ہیں پل پل میں بدل جاتے ہیں“۔ ”عاشق تو مستی میں ڈھلتا ہے“۔ ”خواب دیکھنا بری بات نہیں مگر خوابوں میں نہیں اپنے عہد میں زندہ رہنا چاہیے“۔ ”جسے روٹی کی ضرورت ہے اسے مسجد کا راستہ دکھانے کا کیا فائدہ“۔ ”مُلاں ہمیشہ غریبوں کو صبر کی تلقین کیوں کرتا ہے۔ کبھی زرداروں سے بھی تو کہے کہ تقسیم میں ہی زندگی ہے“۔ ”منصور جب دار پر چڑھتے ہوئے کہہ رہا تھا اہلِ جہاں سن لو میں نور میں ضیاءہوں‘ منصور یہ نہیں ہے‘ یہ ہے سرورِ دلبر“۔ ”طول و سلاسل سے عاشقوں کو ڈرانے والے عشق کی سچائی سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ بھلا کبھی دار بھی عاشقوں کو ڈرا سکی“۔ ”ناداروں پر حرفِ ملامت کسنے والے ظالموں کی چوبداری کرتے ہیں“۔ ”انسان اپنی مرضی سے جینے کے لئے آزاد ہے‘ جو کوئی بھی اس حقِ آدمیت کی راہ کھوٹی کرے سمجھ لو وہ انسانیت سے محروم ہے“۔ ”ازل سے ہی سب ہونا لکھا ہے تو پھر مُلاں ڈراتا کیوں ہے؟“۔ ”جو ہونا ہے ہونے دو اس کی تلاش میں نکلے عاشق اپنا نصیب خود لکھتے ہیں“۔ ”یہ کیا کہ شمشیر تو حسینؓ کے گلے پر چمکے اور کشور کا مالک یزید ٹھہرے“۔ ”حسینؓ شرفِ آدمیت اور حق پرستی کی زندہ دلیل ہے“۔ ”غنی سمجھ چکا اس راز کو کہ ہرقدم اپنی مرضی سے اٹھانا ہے۔ کوئے جاناں کی طرف یا انکار کا طوق گلے میں ڈالنے کے لئے“۔ ”میں بہت بیزار ہوتا ہوں اس وقت جب شیخ عذابی کتابی مسئلے چھیڑ لیتا ہے“۔ ”لوگ عذابوں سے دوچار ہیں‘ عذابوں سے نجات ہی ان کے لئے مرہم ہوسکتی ہے“۔ ”یہ تو احساسات کے کالے عذاب ہیں‘ کبھی مسجد جاتا ہوں اور کبھی مے خانہ“۔ ”اے میرے دل تو ناشاد نہ ہو مُلاں کا خدا اور ہے مخلوق کا خالق اور“۔ ”عاشق اپنا جہاں خود بناتے اور بساتے ہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا انہیں سرد و گرم سے۔ میں تو راکھ سے پھول اور مستی بنالیتا ہوں“۔
غنی خان 1914ءمیں اتمانزئی چارسدہ میں پیدا ہوئے۔ خان عبدالغنی خان پورا اسمِ گرامی ہے۔ سرخپوش تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کے بڑے فرزند تھے۔ اتمانزئی‘ جامعہ ملیہ دہلی اور ٹیگور کے شانتی نکیتن سے پیاس علم بجھائی۔ بنیادی طور پر کیمیکل انجینئر تھے مگر زندگی بھر ان کا رجحان تقابل ادیان‘ تصوف‘ فلسفہ‘ تاریخ‘ عصری علوم اور علم سیاسیات کے ساتھ مجسمہ سازی کی طرف رہا۔ متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے ممبر بھی رہے۔ زندہ شعور کی نشانی غنی خان آج بھی پشتونوں کی نئی نسل کے محبوب فلسفی اور شاعر ہیں۔ پشتو شاعری میں خوشحال خان اور رحمن باباؒ کے بعد ان کا نام معتبر حیثیت رکھتا ہے۔ آزاد منش غنی خان شخصی و فہمی آمریتوں کے کڑے ناقد تھے۔ کچھ رجعت پسندوں نے ان پر ملحد ہونے کی پھبتی بھی کسی لیکن ان مینڈکوں کی بات پر توجہ کون دیتا۔ وہ ایک باکمال انسان‘ سچے وطن پرست‘ انسان دوست‘ بلند پایہ شاعر‘ فلسفی‘ محقق اور ماہر مجسمہ ساز بھی تھے۔ غنی خان نے زندگی بھر دو چیزوں کو مقدم سمجھا اوّلاً فروغِ علم اور ثانیاً شرفِ آدمیت۔ وہ انسانوں اور ملکوں کو غلام بنانے اور غلام بناکر رکھنے والوں کے ساتھ حملہ آوروں کی پیشوائی کرنے والوں کو بھی انسانیت آزادی اور علم و فکر کا دشمن سمجھتے تھے۔ رجعت پسندی کے شدید ناقد غنی خان کہتے تھے خالق ازل جیسا کریم و رحیم اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ مُلاں لوگوں کو ڈرا کر ان کے حصے کی روٹی بھی خود کھانا چاہتا ہے۔ وہ ہمیشہ اس سوچ کی تبلیغ کرتے رہے کہ کسی سے اس کی ذات‘ مذہب اور عقیدے کی بناپر نفرت کرنا انسانیت دشمنی ہے۔ غنی خان کہتے تھے کاش مسلمانوں کو کسی دن یہ بات سمجھ میں آجائے کہ ”حضرت محمد انسانیت کے لئے رحمت و برکت اور رہبر ہیں۔ سچا مسلمان وہی ہے جو علم‘ انسانیت‘ ایثار اور قربانی کے جذبوں سے سرشار ہو“۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں ہمارے نصاب تعلیم میں جن اہلِ دانش کا ذکر ہونا چاہیے تھا وہ تو نہیں ہے البتہ حملہ آوروں کو ہیرو بناکر ضرور پیش کیا گیا۔ اﷲ جانے ہم اپنی سرزمین کے اہل دانش اور انسانیت پرستوں کو بھلانے کے مرض میں کیوں مبتلا ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn