ہماری نئی نسل کس طرف جارہی ہے ہمیں معلوم ہی نہیں۔ کبھی خبر آتی ہے نوجوان لڑکی گھر سے بھاگ کر دہشت گردوں سے جاملی، کہیں پتہ چلتا ہے نشہ کا عادی ہیروئین نہ ملنے کی وجہ سے چل بسا، کہیں میٹرک میں فیل ہونے پر بچے نے خود کشی کر لی، کہیں فیس بک کی دوستی نے بدنام کر ڈالا۔ بے راہ روی آجکل جس طرح پنپ رہی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر طرف سیل فون، برانڈڈ کپڑوں اور چیزوں کی بھر مار ہے ، منشیات کی مختلف قسموں جیسے سگریٹ نوشی سے شیشہ نوشی تک نے نئی نسل کو اپنے جال میں جکڑ لیا ہے، پیسے والے تو ہیں ہی ان چیزوں کے پھیلاؤ میں ملوث غریب لوگ بھی کم نہیں۔ سیل فون کم سے کم قیمت اور موبائل کمپنیوں کے پیکجزکی وجہ سے نوجوان لڑکے لڑکیاں رات رات بھر باتوں میں لگے رہتے ہیں، اللہ جانے کون سی ایسی باتیں ہیں جو ختم نہیں ہوتیں۔ سگریٹ نوشی بھی عام ہے اس کے ساتھ ساتھ ہیروئین ، چرس، گانجا بھنگ نہ جانے کون کون سے نشے چل رہے ہیں۔ جگہ جگہ پارکوں میں، گلی کوچوں، پل کے نیچے بنی جگہوں پر نوجوان، جوان اور بڑی عمر کے نشئی نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ عفریت تعلیمی اداروں میں بھی پھیل گیا ہے۔پیسے والا اپنے انداز سے شیشہ پی کر یا کوکین سے نشہ کرتا ہے ، غریب ہیروئین کے نشے میں مست ہے۔ جن نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنا ہے ماں باپ کا سہارا بننا ہے وہ اپنی زندگی کا سکون ان چیزو ں میں حاصل کررہا ہے۔ جنسی بے راہ روی الگ پھل پھول رہی ہے، فون کے ذریعے رابطے بڑھائے جاتے ہیں اور مخالف جنس کے میل کا نتیجہ بے حیائی اور بے غیرتی پر ختم ہوتا ہے۔ گندی فلمیں دیکھنااور شراب نوشی بھی عام ہوگئ ہے۔ پچھلے دنوں اخبار میں خبر تھی کہ چار لڑکے گاڑی میں شراب نوشی کررہے تھے کہ گرل فرینڈ کے تنازعے میں ایک دوسرے پر فائرنگ کردی، ایک زخمی ہوا اور ایک جان سے گیا، یہ کس نہج پہ حالات جارپے ہیں۔
بے راہ روی کا مطلب صرف یہی نہیں کہ آپ کا بچہ بگڑ رہا ہے اور غلط حرکتوں میں پڑگیا ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ آپ بچے کو تعلیم حاصل کرنے کالج یونیورسٹی بھیج رہے ہیں اور وہ دہشت گرد تنظیموں کے ہتھے چڑھ کر دہشت گردی کی کاراوئیوں میں ملوث ہو جائے۔ اس کی مثال حالیہ دہشت گردی کے واقعات ہیں جو کراچی میں ہوئے جن میں پڑھے لکھے لڑکے ملوث تھے۔ اس سے قبل بھی صفورا چورنگی بس پر دہشت گردی میں بھی ڈگری یافتہ طلبہ کاہاتھ تھا۔ کچھ عرصہ قبل سندھ میں ایک طالبہ اپنی مرضی سے دہشت گردوں میں شامل ہونے لاہور پہنچ گئی جسے بازیاب کروا کر ماں باپ کے حوالے کیا گیا ۔ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی پڑھے لکھے دہشت گرد، دہشت گردی میں ملوث ہیں۔کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہماری جامعات اور کالجز میں دہشت گردی کی تعلیم دی جارہی ہے لیکن یہ خیال غلط ہے بلکہ چند کالی بھیڑیں ہیں جو یہ زہر پھیلارہی ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے چاروں طرف جائزہ لینا پڑے گا کہ یہ زہر پھیلا کیسے۔
بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے۔ بچہ سب سے پہلے جو کچھ سیکھتا ہے وہ اپنے گھر سے سیکھتا ہے۔ جن گھروں میں لڑائی جھگڑے روز کا معمول ہوں وہاں رہنے والا بچہ بھی تشدد پسند ہوجاتا ہے۔ جب وہ اسکول جاتا ہے تو اپنی حرکتوں اور باتوں کی وجہ سے عدم توجہی کا شکار ہوتا ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ وہ ایسے عناصر کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو اپنے غیرقانونی منصوبوں کے لیے اس طرح کے نوجوانوں کی تلاش میں میں ہوتے ہیں ۔ وہ لالچ، مذہب کے غلط استعمال اور مختلف ہتھکنڈوں سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اپنے جال میں پھانس لیتے ہیں اور انھیں ہر معاملے میں اپنی مدد کا یقین دلاتے ہیں، جہاں ضرورت ہو پیسے کا لالچ بھی دیا جاتا ہے۔ ان میں مذہبی منافرت پیدا کرکے قتل اور خود کش دھماکہ کروانے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ انھیں ایسا برین واش کرتے ہیں کہ وہ ہر کام کرنے پر تیار ہو جائیں، چاہے وہ کسی کی جان لینا ہی ٹہرے۔ سماج دشمن تنظیموں کے یہ شکار اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اپنے ماں باپ کو بھی نہیں پہچانتے بلکہ اپنے سر براہ کا کہا مانتے ہیں۔ بدقسمتی سے تعلیمی اداروں میں ایسے اساتذہ بھی ہیں جو طلبا کو اس راہ پر ڈال رہے ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز سرگرمیاں ختم کردی گیئں اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے ایسی تنظیموں نے جگہ بنالی جو تشدد اور دہشت گردی کو پروان چڑھاتی ہیں۔آخر اس بے راہ روی اور تشدد کی روش کو کس طرح ختم کیا جائے؟
اس روش کا تدارک کرنے کے لیے اساتذہ اور ماں باپ کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ گھر میں نوجوان بچوں کو آزادی دی جائے لیکن ان کے دوستوں، گھومنے پھرنے کے اوقات پر نظر رکھی جائے۔ نوجوان کس طرح کے ماحول میں اپنا وقت گزارتے ہیں، رات رات بھر کیوں جاگتے ہیں، ان کے پاس کوئی ایسی چیز تو نہیں جو خطرناک ہو چاہے وہ نشہ آور اشیاء ہوں یا کوئی ہتھیار۔ مائیں بیٹے بیٹیوں کے کمروں کی صفائی کرتے وقت ان چیزوں کا دھیان رکھیں۔ ماں باپ بچوں سے دوستانہ رویہ رکھیں تاکہ وہ اپنی تمام باتیں ماں باپ سےکھل کر کہہ سکیں۔ انھیں اچھے برے کی تمیز سکھائیں، دہشت گردوں کے حربوں کے بارے میں بتائیں کہ وہ کس طرح نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اپنا کام نکالتے ہیں۔ لڑکے اگر گھر سے غائب رہیں تو ان کی سختی سے باز پرس کی جائے، اگر کسی کے بچے دہشت گردوں کے اشاروں پر چل رہے ہیں تو انھیں قانون نافذ کرنے والوں کی مدد سے چھڑایا جائے۔. بے حیائی، نشہ اور غلط حرکتوں سے روکنے کے لیے بھی ابتداء گھر سے ہی کی جائے۔ لڑکیوں کے پہننے اوڑھنے پر نظر رکھی جائے، بچوں کے سیل فون کے استعمال پر نظر رکھی جائے، دلچسپی لیں کہ بچوں کے دوست کیسے ہیں اور ان بچوں کے ماں باپ سے بھی دوستی کی جائے، ماں باپ خود بھی ایسا طریقہ اختیار کریں جسے دیکھ کر نوجوان درست راہ پر چلیں۔ مذہب کے درست بیانئے سےوابستگی کے ذریعے بھی برائی کی راہ پر چلنے سے روکا جاسکتا ہے بلکہ اسی میں ہی نجات وبھلائی ہے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے اور دین کے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn