Qalamkar Website Header Image

پنجاب کا پہلا مزاحمتی کردار تنہا نہ چھوڑنا | اکرم شیخ

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو اس صداقت سے بھی انکار نہیں کہ پنجاب ہی اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی بیس کیمپ ہے۔ اس کی بنیاد پر ہی حکومت سازی، سیاست اور جماعت سازی بھی ہوتی رہی۔ مسلم لیگ کی کہانی بھی اسی تناظر میں کنونشن مسلم لیگ سے شروع ہو کر نون لیگ سے ق لیگ تک جاتی ہے لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ نون لیگ کی عدم موجودگی میں (ق) لیگ کے واضح سرپرستی ہوتی۔ اُسے اقتدار اور اختیار سے بھی نوازا گیا لیکن نہ تو یہ جماعت اور نہ ہی اس کی قیادت نون لیگ اور نواز شریف کی جگہ لے سکی ، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے مزاحمتی کردار کی وجہ سے کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہی بلکہ اس کی عوامی مقبولیت کے بالمقابل ہی نون لیگ یا نواز شریف کو سرپرستی اور تحفظ فراہم کیا گیا تھا لیکن جب وہ خود براہ راست عوامی حمایت کی پوزیشن میں آئی تو وہ بھی ناقابل برداشت ہو گئی۔

اب ایک اور اہم بات تو یہ بھی ہے کہ 2007ء میں مشرف اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے درمیان این آر او ہوا جس میں محترمہ کی جلاوطنی برقرار رہنا تھی اور اُن کی جگہ حکومتی عہدہ کیلئے مخدوم امین فہیم کو تسلیم کیا گیا مگر بینظیر بھٹو وطن واپس آئیں اور انہوں نے انتخابی مہم کا آغاز بھی کر دیا جس کے نتیجے میں شہادت اُن کا مقدر ٹھہری۔ گویا ایک پاپولر سیاست کا خاتمہ ہو گی۔ا اب صرف نون لیگ اور نواز شریف ہی بالمقابل رہ گئے تھےجو ایک معاہدے کے تحت عوامی سیاست میں حصہ نہیں لے سکے تاہم شہباز شریف کو پنجاب کی سیاست کا علمبردار بنا کر انہیں پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت کے بالمقابل موجود رکھا گیا جنہوں نے اپنا کردار بخوبی انجام دیا بلکہ ایک موقع پر نواز شریف بھی پیپلزپارٹی کے خلاف عدالتی کردار میں معاون بن کر کالا کوٹ پہن کر کھڑے ہوئے ، میمو گیٹ اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف۔ یہاں ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ عدالت نے اُن کے خلاف درج مقدمات بھی ختم کئے اور جائداد کی واپسی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

2013ءکے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو دہشتگردی کے تھریٹ کی زد میں آ کر انتخابی عمل سے باہر ہونا پڑا تو اس کی جگہ عمران خان کی تخلیق ہوئی ، لاہور میں اُن کا ایک نمائشی جلسہ بھی ہوا لیکن وہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں رسائی حاصل نہیں کر سکے۔ نون لیگ اور نواز شریف تیسری بار عنان اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

یہ بھی پڑھئے:  کرونا۔۔۔ اور قلم کا رونا!!

یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نواز شریف کے ہر عہد میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تضادات پیدا ہوئے اور انہیں اختلافات کی بنا پر حکومت سے علیحدہ گیا گیا جس کے لئے 58/2B دو دفعہ استعمال ہوئی لیکن اب چونکہ یہ شق پیپلزپارٹی کے دور میں ختم کر دی گئی تھی لہذا 62/63 ناگزیر ٹھہری۔ یہ اختلافات کیا ہیں اُس میں علاقائی اور بین الاقوامی ترجیحات کہاں کہاں متضاد تھیں یہ ایک طویل بحث ہے اس پر نکتہ ہائے نظر سامنے آتے رہیں گے فی الوقت موجود حقیقت یہ ہے کہ انہیں ایک بار پھرحکومت سے نکال دیا گیا ہے بلکہ اب وہ تا عمر سیاسی اور حکومتی عہدے کے لئے بھی نا اہل ہو گئے ہیں۔ اب پنجاب کا سیاسی منظر نامہ کچھ سیاسی ریگستان کی نشاندہی کررہا ہے جس میں خود رو جھاڑیاں ہوتی ہیں یا پھر کچھ مخصوص علاقے جنہیں وسائل اور سرپرستی میں سرسبز و شاداب بنایا جاتا ہے تاکہ وہاں ہریالی کے خواہشمند پرندوں کو وقتی اور موسمی سکون حاصل ہو سکے لیکن کیا ہوگا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ تاہم اس امر میں کوئی شائبہ نہیں کہ 70سال کی تاریخ میں پہلی بار پنجاب کا کوئی مزاحمتی کردار سامنے آیا ہے جس پر سرپرستی کے الزامات بھی ہیں تو کچھ مہربانوں کے مہربان اس کو بغاوت بھی قرار دے رہے ہیں بلکہ اسے باغیوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں ، جس سے کچھ اور حصاروں کے امکانات بھی واضح ہو رہے ہیں جو لرزشوں کا باعث بھی ہو سکتے ہیں جس کے لئے ماضی کی روایتوں کو شہادتوں کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہ۔ے

اسی طرح ایک اور نقطہ نظر ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب حان کی سرپرستی میں سیاستدان اور پھر مزاحمتی لیڈر بنے تھے۔ ہدایت یا تبدیلی کسی وقت بھی آسکتی ہے اب اگر یہ موڑ آگیا ہے نواز شریف پر عزم ہیں تو اُن کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے بلکہ اُن کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے۔ اس کے بالمقابل ایک رائے ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو پر تمام تر الزامات کے باوجود کرپشن کے الزامات نہیں تھے۔ انہیں بھی اور اُن کی بیٹی محترمہ شہید کو سیکورٹی رسک قرار دیا جاتا رہا تھا لیکن نواز شریف پر ایسا کوئی الزام فی الوقت موجود نہیں البتہ اُمید ہے کہ جب دسویں فائل "کھلے گی” تو اپوزیشن کو ان الزامات کے لئے بھی بہت کچھ میسر آجائے گا اور وہ ایک بار پھر عدالت میں انصاف کی صدائیں بلند کرتی نظر آئے گی۔

یہ بھی پڑھئے:  مدینہ منورہ میں دہشت گردی کا ذمہ دار کون۔۔۔؟؟؟

بہرحال اس وقت کی حقیقت تو یہی ہے کہ پنجاب کا ایک سیاستدان مزاحمت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا عندیہ دے رہا ہے اور یہ ستر سال کی غالب سیاست میں پہلی دفعہ ہورہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پنجابی لیڈر تبدیلی اور انقلاب کی بات کرتے ہوئے آئینی نظام پر نظرثانی کی ضرورت کا نمائندہ بن کر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کررہا ہے۔ ابھی تو فیصلے پر عملدرآمد کی ترجیحات بھی ہیں نا اہلی کی وسعت اور پھیلاو کا واضح فیصلہ ابھی ہونا ہے پھر ملاقاتوں اور مذاکرات کا ایک طویل سلسلہ بھی لازم ہوگیاتو یہ سوال بھی اہم ہے، کیا انہیں یہ مواقع فراہم کئے جائیں گے یا پھر اُن سے پہلے ہی کچھ اور آئینی اور قانونی قد غنیں نئے حصاروں کی شکل میں ارد گرد پھیلتی اور سمٹتی نظر آئیں گی کیونکہ ابھی تک صرف فیصلہ آیا ہے اب اُس پر عملدرآمد بھی ہوگا۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پنجاب ، بلوچستان ، گلگت، آزاد کشمیر اور مرکز میں جمہوریت کے تسلسل کے لئے نون لیگ کی حکومتیں برقرار رکھی گئی ہیں مگر خیبر پختونخواہ میں صادق اور امین جبکہ سندھ میں میثاق جمہوریت پر تحفظات رکھنے والی پیپلزپارٹی کی حکومت بھی ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ سیاسی رابطے کیسے ممکن ہوں گے؟؟؟ نواز شریف کیلئے موثر سیاسی قوتوں کے لئے صرف جاتی اُمراءپر اکتفا کرنا پڑے گا، اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ تمام سیاسی جمہوری قوتوں خصوصا چھوٹے صوبوں کی نمائندہ موثر قیادتوں کو نواز شریف یا پنجابی لیڈر کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اس کے ساتھ کھڑے ہو کر نیوسوشل کنٹریکٹ کی اشد ضرورت کا احساس کرتے ہوئے خود بھی آگے بڑھنا چاہئے اور نواز شریف کو بھی واپس مڑنے سے روکنا چاہئے۔ اسی میں قوم اور ملک کے آئینی اور جمہوری راستے اور مستقبل کا تحفظ ہے یاد رہے کہ انہیں بہکانے والوں کو بھی کوئی کمی نہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس