"کل اُس کو علم دوں گا جو خدا اور اُس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اُس کا رسول جسے دوست رکھتے ہیں انشااللہ فتح جس کے قدم چومے گی”
لسان وحی ترجمان قلعہ قاموس کی مہم میں تاحال ناکامیاب لشکر کو نوید سنا رہے تھے۔ یہ غزوہ خیبر کا آخری مرحلہ تھا لیکن قلعہ قاموس کا یہودی سورما مرحب ابھی تک زیر نہ ہو پایا تھا اور پھر چشم ِفلک نے دیکھا کہ اگلے دن لشکر اسلام سے عَلم تھامے آگے بڑھنے والے نے دعوت مبارزت دیتے ہوئے کہا،”میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اور میں دشمن پر بپھرے ہوئے شیر کی طرح جھپٹنے میں مشہور ہوں”۔
نخلستان خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، قلعہ قاموس کے دروازے پر یہودی سورما دہاڑ رہا تھا۔
اس کی شجاعت اور دلیری واقعی وادی خیبر میں ضرب المثل تھی کہ کئی جوان مل کر بھی اُسے زیر نہ کر پاتے تھے۔ اسلام کے ساتھ عداوت بھی اُس کی شہرت کا حصہ تھی۔ وہ کئی دن سے لشکر اسلام کو ناکامیاب لوٹنے پر مجبور کئے ہوئے تھا سو اُس کا گھمنڈ اور غرور بھی ان کامیابیوں کا براہ راست نتیجہ تھا۔
لیکن کوئی دیر میں پرچم وحی سر بلند اور مرحب اپنے سارے غرور اور گھمنڈ سمیت رزقِ خاک تھا۔ قاموس کے یہودی سرکارِ دوجہاں کے روبرو امان کے مستدعی تھے ۔یہ تاریخ ہے، ایک ایسی تاریخ جو ہر مسلم معاشرے میں زباں زدِ عام ہے۔ علی ؑابن ابی طالب، خیبر اور مرحب ملعون یہ وہ کردار ہیں جن کی کہانیاں مسلمان دادیاں نانیاں اپنی معصوم نسل کو کئی کئی دفعہ سناتی ہیں اور اُن کے اندر جوہر شجاعت اور قوت ایمانی کو جگاتی اور صیقل کرتی ہیں۔
یہ اور اس جیسے کئی واقعات تاریخ انسانی میں غرور اور گھمنڈ کے خاک میں ملنے پر گواہ ہیں لیکن ہر معاشرے میں عابد شیر علی ہوتے ہیں جن کا سفر تاریخ کی اُلٹی سمت ہوتا ہے۔ وہ تاریخی کرداروں سے بے خبر نہیں ہوتے بلکہ وہ ان کرداروں کو اپنے عزائم کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اُن کا اپنا کردار تاریخی معرکوں کے مسلمہ حقائق اور نتائج کو ماننے سے مانع ہوتا ہے۔ عابد شیر علی نے میاں نواز شریف کو اگر مرحب قرار دیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انہیں مرحب کی حقیقت کی خبر نہیں بلکہ وہ اُس کی حقیقت کو اپنے اور اپنے راہنما کے حالات سے تطبیق کر رہے ہیں۔
قاموس، طاقت کی بنیاد پر غرور اور گھمنڈ کی علامت ہے۔ عابد شیر علی میاں نواز شریف کی اقتدار کے قاموس میں قلعہ بندی کو دیکھتے ہیں تو انہیں یقینا میاں نواز شریف مرحب ہی دکھائی دیتے ہیں جو کوئی دن پہلے تک ہر سچائی کو غرور کی ٹھوکر پر رکھے ہوئے تھے۔ جنہیں اپنے قلعے کی مضبوطی پر ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا۔ اُن کی آنکھیں اور کان اس قلعے کے باہر جاری حقیقت کے رجز دیکھ سن نہیں رہے تھے۔ حالات میں بدلاو چیخ چیخ کر پکار رہے تھے کہ اقتدار کا قاموس کسی کی ایک ضرب سے سرنگوں ہونے کو ہے لیکن مرحب اپنی طاقت کی مستی میں مدہوش تھا۔
جس دن کسی مجاز ادارے نے مجھے بدعنوانی کا ذمہ دار قرار دیا میں اُسی دن اقتدار چھوڑ دوں گا
یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے تھے
مقامی مرحب للکار رہا تھا۔ اُسے قاموس کی مضبوطی پر اعتبار تھا۔ یہی قاموس ماضی میں کئی دفعہ اُس کی کرسی کو ہر دستبرد سے بچاتا رہا تھا سو کون کہہ سکتا تھا وہ عظمیٰ جسے وہ اپنے قاموس کی فصیلوں میں سے ایک سمجھتا تھا اُسی فصیل سے ایک ضرب یداللٰہی اُس کے قاموس کی ہستی نیستی کر دے گی۔
عابد شیرعلی تم ٹھیک کہتے ہو مرحب جو للکارا جا رہا تھا میدان میں نکل آیا ہے لیکن عابد شیرعلی تم نے مرحب کے میدان میں نکلنے کے بعد کا واقعہ نہیں پڑھا یا نہیں سنا۔مرحب اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں میدان میں نکلا تو تھا لیکن اپنی طاقت اور قوت سمیت رزق ِ خاک ہو گیا کیونکہ کبریائی اور غرور صرف اور صرف رب کائنات ہی کو زیبا ہے اور اقتدار اور حکومت بھی اسی کی ہمیشہ رہنے والی ہے۔ عابد شیر علی انتظار کرو اگلی ضرب ید اللٰہی کا۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn