پاکستانی عوام پچھلے ستر سالوں سے مسائل کے ساتھ ساتھ امتحانات سے بھی نمٹتے چلے آرہے ہیں۔ ہم نے بحیثیت قوم ہمیشہ مسائل سے نمٹنے کیلئے وقتی فیصلے کئے، ہم نے کبھی بھی مکمل نجات کی جانب دھیان نہیں دیا۔ اسی وجہ سے پرانے مسائل پھر ابھی تک ہمیں ستاتے چلے آرہے ہیں۔ ہم ہر سال سیلابوں کی وجہ سے نقصان برداشت کرتے ہیں اور ہمیشہ وقتی سدِ باب کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہم کوئی باقاعدہ انتظام نہیں کرتے کوئی ڈیم نہیں بناتے اپنے نہری نظام پر دھیان نہیں دیتے کیونکہ عوام جو اصل متاثرین ہیں وہ کوئی مطالبہ ہی نہیں کرتے بس جیسے بھی ہو وہ وقت گزر جائے۔ دہشت گردی کو لے لیجئے آئے دن کہیں نا کہیں کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے جس میں لوگوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ انتظامیہ کچھ دنوں کیلئے بہت سختی کرتی ہے پھر آہستہ آہستہ سب ویسے ہی رواں دواں ہوجاتا ہے۔ ایسی بے تحاشہ مثالیں ہم سب کے اردگرد موجود رہتی ہیں کیونکہ یہ ہمارا قومی المیہ ہے۔ ہم انفرادی طور سے لے کر اجتماعی طور تک ایسے ہی ہیں۔ ہم میں بہت پڑھے لکھے اپنے آپ کو باشعور سمجھنے والے لوگ بھی مزاجاً اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اب ایک بنیادی مثال لیجئے جسکے لئے سیاسی رہنماؤں یا سیاسی جماعتوں کے چناؤ میں اپنا رویہ دیکھتے ہیں۔ ہم سال ہا سال سے ایک ہی سیاسی جماعت کو ووٹ دئیے جا رہے ہیں جب کہ ہمارے علاقے کی حالت میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں آرہا۔ ہم نے ایک ہی جماعت کو تین تین بار اپنے ووٹ کی طاقت سے ایوانوں کی زینت بنایا مگر ہر بار ہی کسی نا کسی وجہ سے معینہ مدت مکمل کئے بغیر ایوان سے نکال پھینکا گیا۔ ان نکالنے والوں میں کبھی صدور تھے، کبھی جنرل تھے اور کبھی عدلیہ۔ اب ہم ان مستحکم اداروں پر شک کرنے سے قاصر ہیں کیوں کہ پاکستان میں یہی ادارے ہیں جو تقریباً ملک کی سمت کا تعین کرتے ہیں اور ہر برے بلکہ بد ترین حالات میں سینہ سپر ہوتے ہیں۔ انہی اداروں کی بدولت پاکستان ابھی تک اپنے وجود کو سنبھالے ہوئے ہے۔
واپس آجائیے! مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ایک سوراخ سے ایک سے زیادہ دفعہ ڈسے جانے کو منع کیا گیا ہے یعنی جب ایک جگہ سے آپ کو دھوکہ دیا جائے تو مومن کی پہچان ہے وہ دوبارہ وہاں سے دھوکا نہیں کھائے گا۔ یہاں ہم پاکستانیوں نے دو دو اور تین تین بار ڈسے جانے کے بعد بھی عقل کے ناخن نہیں لئے ہیں اور شعور کا تانا بانا تلاش کرنے میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے اور جب سے پڑھنے کے لائق ہوئے ہیں تو دو ہی نعرے سنے ہیں، پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے اور پاکستان تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ آج جب پاکستان کو وجود میں آئے ستر سال ہو گئے ہیں تو بھی یہی راگ سماعتوں سے ٹکرا رہا ہے۔ یہ الفاظ دھرانے والے ہمارے ملک کے نامور سیاست دان ہوا کرتے ہیں۔ ایک سوال ذہن میں اٹھ رہا ہے کہ کیا ہم آج بھی وہیں تو نہیں کھڑے جہاں سے چلے تھے یعنی ۱۹۴۷ میں کیونکہ ہم جہاں سے چلے تھے وہی سب سے نازک ترین موڑ تھا۔ پاکستان نازک ترین موڑ سے آگے کیوں نہیں بڑھ رہا اور ہمارے سیاستدان اسے کیوں آگے نہیں بڑھا رہے۔ اب تک پاکستان میں جتنی بھی بڑی (ملک گیر) سیاسی جماعتیں ہیں سب ہی اپنے اپنے حصے کے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوچکی ہیں مگر عوام کی بدقسمتی سے ملک پھر بھی نازک ترین موڑ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ پاکستان کو ایسے حالات و واقعات میں کس نے الجھا کے رکھا ہوا ہے؟ ہم اس ناکامی کا سہرا کسی دشمن ملک پر نہیں ڈال سکتے بلکہ یہ سہرا عوام کے سر پر ہی سجتا اچھا لگے گا۔ سیاست دانوں کو جب جب موقع ملا اقتدار میں آئے اور جو اقتدار کا حصہ نہیں بن سکے انہوں نے اقتدار والوں کی ٹانگیں کھینچنے میں سارا وقت نکال دیا۔ ایسا ہوتا رہا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
پاکستان کا دفاعی بجٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے اور رکھنے کی ضرورت بھی رہی ہے کیونکہ ہمارے ہمسائے ہمیں سکھ کا سانس ہی نہیں لینے دیتے لیکن اگر صرف ایک بار پاکستان اپنا سارا کا سارا بجٹ تعلیم پر لگا دے اور سب سیاستدان تعلیم کی ترویج اور ترقی کیلئے میدان میں آجائیں (بغیر کسی قسم کی تفریق کے) تو پاکستان راتوں رات ترقی کی سیڑھیاں چڑھ جائے گا۔ ہمارے ملک میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر ہی نہیں کیا گیا اور جو لوگ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے نکلے تو انہیں کہیں نہ کہیں بھٹکا دیا گیا۔ تعلیم کا بنیادی مقصد شعور کی بیداری ہے اور شعور کی بیداری کا مطلب ہوتا ہے اچھے برے کی تمیز آنا، اپنے بنیادی حقوق کا پتہ چلنا اور انکے لئے آواز اٹھانا، اپنے عقائد کے بارے میں حقیقی معلومات کیلئے کوشش کرنا اور زائد المیعاد روائتی اقدار سے جان چھڑانا۔ غرض یہ کہ تعلیم ملک و قوم کی ترقی کی بنیادی اکائی ہے۔ اس اکائی کو حاصل کئے بغیر آپ کتنے ہی آگے بڑھ جائیں ایک دم سے واپس اپنے نقطۂ آغاز پر آجائینگے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بغیر بنیاد کے گھر کی تعمیر شروع کر دی جائے۔ کسی بھی معاملے پر غور کرنے کیلئے آپ کو علم کی ضرورت پڑیگی کیونکہ غور کرنے کیلئے صرف اور صرف جذبات کافی نہیں ہیں۔ مسجد صرف روحانی عبادت کیلئے نہیں جائیں بلکہ وہاں جانے کا مقصد بھی علم سے شناسائی ہونا چاہئے۔
ہم پاکستانی گزشتہ ستر سالوں سے پاکستانی ہونے کا جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ کبھی ہم پنجابی بن کر رہے جاتے، کبھی ہم سندھی بن کر رہے جاتے ہیں، کبھی ہم بلوچ بن کر اپنی محرومی کا رونا روتے رہتے ہیں، کبھی ہم پشتون بن کر احسان جتاتے ہیں اور کبھی ہم مہاجر بن کر اپنی حیثیت ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں مگر ہم پاکستانیت تک کبھی نہیں پہنچ پاتے۔ ہمیں تعصب کا تو شعور ہے مگر پاکستان کا نہیں ہے ہم پاکستان کے لئے دی گئی قربانیوں کو بھی تعصب کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ ہمیں اللہ نے وہ سرزمین عطاء کی جہاں قدرت کی ہر نعمت رحمت کی طرح دستیاب ہے مگر ہم نے ان نعمتوں کے ساتھ بھی وہ رویہ روا رکھا ہوا ہے جو پاکستان سے کم از کم محبت کا احساس تو نہیں دلاتا۔
پاکستان کو ہمیشہ سے ہمارے شعور کی ضرورت تھی مگر ہمارے شعور سے سیاستدانوں کو خوف آتا ہے۔ وہ چاہتے ہی نہیں کہ عوام کو انکی حقیقت کا علم ہو کیونکہ اگر عوام کو معلوم ہو گیا کہ اصل میں ہمارے سیاستدان کیا ہیں تو عوام کبھی بھی انہیں ووٹ جیسی عزت افزائی سے نہیں نوازیں گے۔ تعلیم کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ عام آدمی اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے بھیک مانگنے یا پھر محنت مزدوری میں لگادے یا پھر ان سیاستدانوں کے آگے پیچھے ان کے حق میں نعرے لگانے کیلئے چھوڑ دے۔ ہمیں اب تو اپنے حق کو سمجھ لینا چاہئے، ہمیں اب تو سوچ سمجھ کر مشاورت سے آنے والے دنوں میں پاکستان کیلئے فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو یہ جملہ نہ سننا پڑے کہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے۔ اب ہمیں اپنے تدبر سے یہ موڑ ایسے کاٹ ہی لینا چاہئے کی پھر پلٹ کر نہیں دیکھیں۔ یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب ہم تیسری یا چوتھی دفعہ ایک ہی سوراخ سے ڈسنے سے اپنے آپ کو بچالیں۔ آئیں پاکستان کا ستر سالہ جشن آزادی قومی شعور کو اجاگر کر کے منائیں اور دنیا کو بتائیں کہ ہمارے لئے صرف وہی نظام اہمیت رکھتا ہے جو پاکستان کو سنبھال لے اور پاکستانیوں کو سکون کا سانس لینے دے۔
آخر میں ہماری جانب سے باشعور ہوتی پاکستانی قوم کو جشن آزادی کی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn