Qalamkar Website Header Image

جی ٹی روڈ تے بریکاں وجیاں۔۔۔ | مجتبی شیرازی

میاں صاحب کی انتخابی سیاست میں جی ٹی روڈ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے وہ اسی سڑک پر ووٹ کی پرچیوں پر سوار تین دفعہ وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد پہنچے ہیں۔میاں صاحب پہنچ تو جاتے ہیں لیکن پھر انہیں موٹر وے یاد آنے لگتی ہے ۔کہاں موٹر وے کہ داخل خارج کے تکلفات ،رفتار کی ہمواری ،لینو لین نظم و ضبط اور کہاں جی ٹی روڈ اسے دائیں سے کاٹو اور اسے بائیں سے سائڈ کراﺅ ،یہاں رکو وہاںصفر میل کی رفتار سے چلو۔لیکن وزیراعظم ہاﺅس تو جرنیلی سڑک پر سے گذر کر ہی آتا ہے۔

میاں صاحب بادشاہ آدمی ہیں جرنیلی سڑک سے وزیراعظم ہاﺅس جاتے ہیں اور پھر تیز رفتار، محفوظ اور منظم موٹر وے یاد آنے لگتی ہے۔ لیکن اب میاں صاحب واپسی بھی جی ٹی روڈ سے کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ رفتار اور تحفظ اُن کا بنیادی مسئلہ نہیں رہا۔ جرنیلی سڑک سے واپسی میں بھی کوئی نہ کوئی راز ہے ورنہ پروگرام تو موٹر وے ہی کا تھا ۔سنا ہے کہ مریم بی بی کی فرمائش پر جی ٹی روڈ کا پروگرام بنا ہے ۔ آمد و رفت جرنیلی سڑک سے طے کرنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ مریم بی بی میاں صاحب کے چلے ہی جانے پر آمادہ نہیں ہیں۔جی ٹی روڈ کا سیدھا سادہ مطلب ہے ان دیکھے دشمن کی سازش کے خلاف صف آرائی۔ دشمن جو مریم بی بی کو تو دیکھائی اور سنائی دیتا ہے جومیاں صاحب کوبھی شاید نظر تو آسکتا ہو لیکن وہ اس کے ساتھ آنکھیں چار کرنے کے موڈ سے نہیں ہیں۔

سازش جس کا مرکز بقول میاں اینڈ کو تو کہیں دور دیس میں ہے لیکن اُس کی کٹھ پتلیاں وطن عزیز میں میاں صاحب کے لئے سیاسی موت کا رقص کھیل رہی ہیں۔لیکن مریم بی بی چاہتی ہیں کہ عظمیٰ نہ سہی مگر اُس کے فیصلے کو جی ٹی روڈ پرضرور گھسیٹا جائے۔ شاید اسی طرح ان دیکھے دشمن کی شکل دیکھنے والوں کے لئے کہیں جی ٹی روڈ پر چھپ جائے۔ اس تناظر میں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب تو شاید سیدھی سادھی واپسی براستہ موٹر وے پر آمادہ ہیں لیکن مریم بی بی یہ سنہری موقع کسی دوسرے کے ہاتھ آنے پر تیار نہیں۔ جرنیلی سڑک اپنے پہلے پل تک پوٹھو ہار کے پیچ و خم ناپتی ہے۔ پوٹھوہار جس کے حصے میں دوسری نا اہلی کے بعد بھی وزارت عظمیٰ کا تاج آیا ہے لیکن پوٹھوہار کی وزارت عظمیٰ کسی کے لئے بھی اچھا شُگن ثابت نہیں ہوئی۔
مریم بی بی کا خیال ہے کہ شاید جرنیلی سڑک سے رفت شاید ایک دفعہ پھر آمد کا شُگن ہو جائے لیکن سڑک کا موڈ مزاج کچھ بھی ہو جرنیل صاحب نے ایک ایسے پاکستان کی نوید سنا دی ہے جس میں کوئی بھی قانون سے بالا نہیں یا یوں کہیے کہ اب یہاں قانون کی نظر میں کسی کے لئے بھی کوئی لحاظ نہیں۔جرنیل صاحب کا یہ بیان کسی بھی تناظر میں ہو لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اب جرنیلی سڑک سے وزارت عظمیٰ ہاﺅس کی طرف واپسی پر پڑنے والے ہر ٹول پلازہ پر ادائیگی لازمی ہے۔ اس بیان کا یہ مطلب بھی سیدھا سادہ ہے کہ سڑک جہاں بھی جائے یا لے جائے لیکن جرنیلی قانون اور اُس کے ہر قسم کے نفاذ کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے سو عظمیٰ کا فیصلہ جرنیلی سڑک پر گھسیٹا جائے یا لاہور کی رنگ روڈ پر اس کے اثرات کے جان چھڑوانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
میاں صاحب جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے گاڑی کی لیونگ سیٹ پر پڑے پھڑپھڑاتی ڈان اخبار سے اپنی آنکھیں بچائیں کہ حادثہ ہمیشہ نظروں کے سامنے سڑک کے علاوہ کچھ آجانے ہی سے ہوتا ہے۔ جی ٹی روڈ ہو یا موٹر وے اصل مسئلہ ایکسیلریٹر پر پاﺅں کے دباﺅ کا ہوتا ہے۔ اگر پاﺅں اقتدار کی دُھن پر ناچنے لگے تو گاڑی کی رفتار پر اختیار نہیں رہتا اور میاں صاحب کی سیاست کی گاڑی یوں بھی فور وہیل ڈرائیو ہر گز نہیں اور جی ٹی روڈ پر پوٹھوہار کی اُترائیوں چڑھائیوں کے بعد شایدگاڑی مریم بی بی کی مطلوبہ رفتار بر قرار نہ رکھ سکے۔ سیاست میں انجام میں سے نیا آغاز نکالنے میں جو دم لگتا ہے اُس کا جی ٹی روڈ نہیں کسی سفاری میں گاڑی کا امتحان مناسب ہوتا ہے لیکن بلو کی ٹور پہ بریکاں تو جی ٹی روڈ پر لگتی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  عائشہ گلالئی، داغ تو اچھے ہوتے ہیں | حسنین ترمذی

حالیہ بلاگ پوسٹس