Qalamkar Website Header Image

سندھ کی سیاسی تاریخ . تصویر کا دوسرا رخ | بلال حسن بھٹی

تاریخ یا تاریخی حقائق ایک ایسا موضوع ہے جس کو سمجھنے کے لئے طرفین کا موقف جاننا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں طلبہ کو جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ یک طرفہ اور تعصب پر مبنی ہوتی ہے۔ اس بات کی مخالفت میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں پڑھائی جانے والی تاریخ یک طرفہ ہی ہوتی ہے۔ جس میں اپنے ملک کی تعریفیں اور مخالفین کی برائیاں کی جاتی ہیں۔ اگر اس بات کو مان بھی لیا جاۓ تو دوسرے ملکوں میں تحقیق کی نہ صرف کھلی آزادی دی جاتی ہے بلکہ پرائمری سطح پر ہی بچوں میں تنقیدی اور تحقیقی سوچ ابھارنے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تحقیق کا رججان بہت کم ہے۔ نوے فیصد تاریخ پر چند مخصوص گروہوں کی اجارہ داری ہے اور اس تاریخ سے ہٹ کر بات کرنے پر آپ جاہل سے لے کر کافر، ملحد، ایجنٹ اور غدار تک کے فتووں کی زد میں آ سکتے ہیں۔ آپ روایت سے ہٹ کر سوال چاہے کلاس روم میں اُٹھاٰئیں یا سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم پر آپ کے سوال کے مطابق جواب پہلے ہی تیار ہوتا ہے۔

تحریک پاکستان اور اس کے حالات پر پاکستان میں بہت کچھ لکھا گیا۔ جس کا اکثریتی حصہ یک طرفہ حقائق پر مبنی ہے۔ روایتی تاریخ سے ہٹ کر کسی نے کچھ بھی لکھنے یا بولنے کی کوشش کی تو اُسی وقت اُس کی پاکستانیت خطرے میں پڑتی نظر آٰئی۔ ایسی ہی ایک آواز غلام مرتضٰی سید المعروف جی ایم سید صاحب ہیں۔ جی ایم سید نہ صرف ایک عوامی لیڈر اور سیاست دان بلکہ اہنے عہد کے ایک نامور مفکر، صاحب علم شخصیت اور سماجی کارکن بھی تھے۔ انہوں نے اپنی سیاسی اور سماجی کاموں میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ مختلف کتابیں بھی لکھیں۔ "سندھ کی آواز” ایسی ہی ایک کتاب ہے جس میں زیادہ تر اُن حقائق سے پردہ اُٹھایا گیا ہے جو ہمیں مقبول و معروف تاریخی کتب میں بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ کتاب اُن کا طویل عدالتی بیان ہے جس میں اُنہوں نے اپنے سامنے گزری آٹھ دہائیوں کی تاریخ کو سمو کر رکھ دیا۔ جی ایم سید سندھ اور سندھیوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والوں میں سب سے توانا آواز سمجھی جاتی ہے۔ اپنے سیاسی سفر کے آؑغاز سے لے کرکانگریس میں شمولیت اور علیحدگی، سندھی مسلمانوں کے حقوق اور ان کی شخصی آزادی کے لئے مسلم لیگ میں شمولیت، سندھ مسلم لیگ کے صدر کے عہدے پر رہتے ہوۓ سندھی وڈیروں اور پارٹی میں اقربا پروری کے خلاف آواز اُٹھانے کی پاداش میں پارٹی سے نکالے جانے اور پاکستان بننے کے بعد سندھیوں کے جائز مطالبات منوانے کے لئے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے تک کی تمام تفصیلات اس کتاب میں بہت خوبصورتی سے بیان کر دی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  خس و خاشاک زمانے

اکتوبر 1938 میں جب اُنہیں اندازہ ہوا کہ کانگریس کو سندھی مسلمانوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے تو انہوں نے سندھی عوام کی غربت، جہالت اور بدامنی کے خاتمے کے لئے مسلم لیگ میں شامل ہونے کوترجیح دی۔ اپنی بھرپور کوششوں سے اُنہوں نے مسلم لیگ کو سندھ کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں سے متعارف کروایا۔ اسی سلسلے میں دن رات ایک کر کے اُنہوں نے پورے سندھ کے دورے کئے اور بھرپور تقریریں کیں۔ یہ انہی کی کوشش تھی کہ سندھ میں مسلم لیگ کی ممبرشپ چھے ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ تک ہو گئی۔ انہوں نے مسلم لیگ کے اصولوں پر مبنی لٹریچر چھپوا کر عوام کو قائد اعظم اور مسلم لیگ سے متعارف کروایا اور تب تک پارٹی میں شامل رہے جب تک پارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ نے ان کو پارٹی سے نہ نکالا۔
کتاب کے پہلے حصے میں ہم وہ جی ایم سید دیکھتے ہیں جو سندھیوں کے لیے کانگریس سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوتا ہے۔ عوام میں مسلم لیگ کو متعارف کرواتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہی جی ایم سید سندھ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے اپنی پارٹی میں موجود اقربا پروری اور وڈیرہ شاہی کے خلاف برسرپیکار نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ میں یہ امیر لوگ اس قدر مضبوط اور پارٹی لیڈرشپ اس قدر مغرور تھی کہ انہوں نے کچھ سیٹھوں کی جانب سے لگاۓ جانے والے الزمات کی وجہ سے جی ایم سید کو نوٹس بھجوا کر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا اور یوں معافی نہ مانگنے پر وہ پارٹی سے علیحدہ کر دیے گۓ۔

کتاب کے اس پہلے حصے میں ہم جی ایم سید کی جانب سے تحریک پاکستان کے ایک کارکن اور مسلم لیگ سندھ کے صدر کی حیثیت سے مطالعہ پاکستان میں موجود اور مقبول و عام تاریخی کتب سے ہٹ کرچشم دید گواہ کی حیثیت سے پاکستان پر قائد اعظم کی ابتدائی راۓ، اسلام کو تحریک میں ایک سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کرنے، کیبنٹ مشن پلان، تیرہ جون اور تقسیم کے موقع پر مسلمانوں سے ہونے والی زیادتی پر بہت سیر حاصل گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ گو کہ درمیان میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کی ذات کو موضوع بحث لاتے ہوۓ وہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں لیکن اگر دیکھا جاۓ تو وہاں ہمیں ایک ایسا شخص نظر آتا ہے جو مسلسل اپنی حق گوئی اور نہ جھکنے والی طبیعت کی وجہ سے ایجنٹ، غدار اور ملحد جیسے مقبول و معروف فتوے برداشت کرتے ہوۓ ردعمل کی نفسیات کا شکار ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  سو لفظوں‌کی کہانی از مبشر علی زیدی

کتاب کے آخری حصے میں وہ پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے اور عوامی معاملات پر آواز اُٹھاتے، فتوے برداشت کرتے، ہر طرح کے الزامات سہتے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ایک طرف لیاقت علی خان سے لے کر بھٹو تک سب وزراۓ اعظم کو خطوط کے ذریعے اپنے تعاون کی یقین دہانی کرواتے نظر آتے ہیں۔ تو دوسری طرف ریاست کا سندھیوں کے حقوق پر اُن سے کیا جانے والا سوتیلوں جیسا سلوک دیکھتے ہوۓ سندھو دیش کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں۔ چاہے جس کی بھی حکومت انہوں نے جب بھی سندھیوں کے تشخصی احیا اورصدیوں سے قائم سندھو دیش پرآواز اُٹھائی تو ہم نے اُنہیں جیل میں قید یا گھر میں نظر بند دیکھا۔ ون یونٹ کے قیام کی وجہ اور اس سے چھوٹے صوبوں پر ہر حوالے سے ہونے والے منفی اثرات، سندھ میں فوجیوں کی طرف کی جانے والی زمینوں کی بندر بانٹ وہ ایشو ہیں جن کا ہماری تاریخی کتب میں بہت کم ذکر ملتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے خلاف بہت سی سازشیں ہوتی ہیں۔ ان میں بہت سے ملکی کردار بھی شامل ہوتے ہیں۔ مگر ہماری ریاست اور اسکے اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ذاتی مفادات اور لڑائیوں کو ایک طرف رکھتے ہوۓ چھوٹے صوبوں کی عوام میں پاۓ جانے والی محرومیوں پر توجہ دیں تا کہ دوبارہ کوئی بنگلہ دیش جیسی صورت حال پیدا نہ کر سکے۔ اگر ریاست اور ریاستی ادارے اسی طرح الزام الزام کھیلتے رہے تو پھر یہ الزامات پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں اس شدت سے لے لیں گے کہ اس سے جان چھڑوانا ممکن نہیں ہو گا۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ طلبہ میں تحقیقی ذہن کی تخلیق کریں ورنہ یہ کنویں کے مینڈک بن کرایک دوسرے پر فتوۓ لگاتے اور قتل کرتے رہیں گے۔ اللہ نہ کرے ایک لمحہ وہ آۓ گا کہ بنگلہ دیش کی طرح ان پر ریاست اور ریاستی اداروں کا کنٹرول بھی نہ رہے گا۔ جس کا فائدہ ہمارے دشمنوں کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہو گا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

ماتم ایک عورت کا (ناول) – تبصرہ

دوستووئیفسکی کے ”جرم و سزا“ نے وحشت ذدہ کر دیا تھا۔ جیل میں ہونے والے مظالم کا پہلا تعارف تو ”زندان کی چیخ“ کے کچھ حصے تھے۔۔ طاہر بن جلون نے

مزید پڑھیں »

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »