Qalamkar Website Header Image

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں | ام رباب

فی زمانہ ہر شخص وقت کی کمی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے، یوں لگتا ہے گویا وقت کو پر لگ گئے ہوں اور وہ تیزی سے اڑا جا رہا ہو یا ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلا جا رہا ہو۔ بزرگ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ و قت کی قدر کرو کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا اور یہ سچ بھی ہے۔بظاہر اس کی کئی وجوہات نظر آتی ہیں جن میں سب سے بڑا الزام تو ہم ترقی اور اس کی رفتار پر عائد کر دیتے ہیں کہ جوں جوں زمانہ ترقی کر رہا ہے اور ہم نئی ٹیکنا لوجی اپنا رہے ہیں ہمارے پاس وقت کم ہوتا جا رہا ہے اور ہم اپنا بیشتر وقت موبائل اور کمپیوٹر کی نذر کر دیتے ہیں۔
دراصل ہم اپنے دن کا آغاز ہی کسی قسم کی منصوبہ بندی اور پلاننگ کے بغیر کرتے ہیں۔ ہمارے دن کی شروعات ہی بد نظمی اور بے ترتیبی سے ہوتی ہے جو وقت ضائع ہونے اور کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔پلاننگ یا منصوبہ بندی کی عادت اپنانے سے آپ بہت سا وقت بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور اس وقت کو اپنی کسی اور تعمیری سرگرمی یا ضروری کام میں صرف کر سکتے ہیں اور یوں وقت کی بچت کے ساتھ آپ اپنی توانائیوں کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔یعنی اگر صرف اتنا بھی کرلیں کہ رات سونے سے پہلے اگلے تمام دن کا شیڈول ترتیب دے لیں ،یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ سونے اور جاگنے کے اوقات بھی مقرر کئے جائیں اور ان پر سختی سے کاربند رہا جائے۔

پلاننگ اور منصوبہ بندی نہ صرف دن کے لئے بلکہ آپ اپنے ضروری کاموں کی ترجیحات مقرر کر کے ہفتے ، مہینے اور آئندہ آنے والے کئی سال کی پلاننگ کر سکتے ہیں اور یوں ایک ترتیب اور نظم و ضبط سے چلتے ہوئے آپ اپنے روز مرہ وقت میں سے کئی قیمتی لمحے جو آپ محض بے کار اور فالتو کاموں اور سرگرمیوں پر صرف کر دیتے ہیں، بچا سکتے ہیں۔ مثلاً میں یہ کہوں کہ اب بیٹھکوں اور چوپالوں کے زمانے لد گئے کہ جب محلے بھر کے بزرگ شام کو بیٹھک میں جمع ہوا کرتے تھے اور آپس میں باتیں کرتے اور گپیں لگایا کرتے تھے۔ یہ اس وقت اس لئے ممکن تھا کہ اس وقت زمانہ اتنی تیز رفتاری سے ترقی کرتا ہوا دوڑا نہیں جا رہا تھا اور ان بزرگوں کے پاس اس سب کے لئے وافر وقت ہوا کرتا تھا۔اب اس تیز دنیا اور تیز رفتار وقت میں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا اشد ضروری ہے اور اپنی زندگیوں کو ایک نظم اور ترتیب میں لانا بے حد اہم ہے،بد نظمی اور بے ترتیبی بھی وقت کے ضیاع کا ایک اہم سبب ہے اور ہم اتنا شعور تو ضرور رکھتے ہیں کہ اپنی ترجیحات کا تعین کر سکیں۔ترجیحات کے تعین پر مجھے ایک دل چسپ شعر یاد آیا
عشق نے سیکھ لی وقت کی تقسیم کہ اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد
ہم میں سے اکثر لوگوں کو عادت ہوتی ہے( جس کا مشاہدہ میں نے دفتر میں اپنے ساتھیوں میں کیا ہے) کہ دفترمیں آپ کے پاس روزمرہ کاموں کے ٹاسک مقرر ہوتے ہیں اور انہیں آپ کو نو سے پانچ کے مقررہ اوقات میں نمٹانا ہوتا ہے،اسی دوران اگر باس آپ کو ایک اضافی ذمے داری اور ٹاسک دینے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ باوجود اس کے کہ گلے گلے تک کام میں دھنسے ہوئے ہیں اور اپنے روزانہ کے ٹاسک مکمل کرنے کے لئے بھی وقت کی کمی کا شکار ہیں، وہ کام قبول کر لیتے ہیں۔اب اس کی وجہ رواداری یا خوشامد جو بھی ہے، غلط ہے۔ انکار کرنا سیکھئے، ہر اس کام سے جو آپ کے لئے کسی مخصوص وقت میں کرنا ممکن نہیں، کیونکہ بے وجہ ذمہ داری لینے سے آپ نہ تو اپنا روزمرہ کا کام بخوبی کر پائیں گے اور نہ ہی اضافی ذمہ داری بحسن و خوبی ادا کر پائیں گے۔
ہم جس ترقی کو اپنے وقت کے ضیاع کا سبب سمجھتے ہیں وہی ترقی مغربی معاشرے نے وقت کی قدر کر کے اور اس کا سحیح استعمال کر کے حاصل کی ہے۔انہوں نے موبائل یا کمپیوٹر کو وقت کے زیاں کے لئے نہیں اپنایا۔ہم تو کسی بھی قسم کی محفل ہو، شادی بیاہ کی تقریب ہو اس میں وقت پر پہنچنے کی زحمت کبھی نہیں کرتے بلکہ اکثر تقریبات میں مہمان خصوصی کے انتظارمیں کئی کئی گھنٹے ضائع ہو جاتے ہیں۔حتیٰ کہ دفاتر میں بھی کچھ لوگ ہمیشہ دفتردیر سے آنے والوں میں شمار ہوتے ہیں اور اپنے اس فعل پر ہر گز شرمندہ بھی نہیں ہوتے یعنی ہمیں وقت ضائع ہونے پر نہ ہی کوئی افسوس ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی شرمندگی۔
مغربی ممالک میں دفاتر اور اداروں میں کارکنوں اور ملازمین کی کارکردگی بڑھانے کے لئے ٹائم مینیجمنٹ کے کورس اور ٹریننگ کروائی جاتی ہیں تا کہ ملازمین وقت کے استعمال کی خوبی سے آگاہ اور مالا مال ہوں اور یوں وہ اپنی اور اپنے ادارے کی کارکردگی بڑھانے میں مددگار ثابت ہوں۔

یہ بھی پڑھئے:  بچوں پر جنسی تشدد کا ذمہ دار کون؟ - اسماء مغل

دنیا میں آج تک جتنے بھی کامیاب لوگ گزرے ہیں،سب نے وقت کی قدر کی اور اس کی اہمیت جانی۔ہمارے ہاں لوگ روپیہ پیسہ جمع کرنے اور بچانے کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ وقت زیادہ قیمتی سرمایہ ہے، اسے بچائیے۔وقت ہی اصل دولت ہے۔اس دولت کو بچا کرجو فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے وہ فائدہ روپے پیسے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
ہم زماں و مکاں کی قید میں ہیں اس سے آزادی موت کی صورت میں ہی ممکن ہے،زندگی مختصر ہے اسے بھر پور طریقے سے گزاریئے، ہر کام کا ایک وقت مقرر کیجیئے اور اس کے مقررہ وقت میں مکمل کرنے کی کوشش کیجیئے کہ وقت کی قدر ہی اصل کامیابی کا راز ہے کیوں کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس