سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ ہونے سے قبل اپنے کالم میں نواز شریف کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ وزرات عظمی سے استعفی دے کر اپنابہت کچھ بچا سکتے ہیں اور یہ راستہ ہی ان کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔اسی طرح ایک اور کالم میں یہ بھی کہا تھا کہ محفوظ فیصلہ نواز شریف کے لئے دراصل ایک محفوظ راستہ ہے۔ انہیں چاہیےکہ آنے والےعدالتی فیصلے میں جتنا بھی وقت باقی ہے اسے اپنے لئے غنمینت جانیں اور وزارت عظمی سے مستعفی ہو کر عزت اور پارٹی کو ٹوٹنے سے بچا لیں۔ انہیں یہ تجویز بھی دی تھی کہ وہ اس کڑے وقت کو اپنے لئے ایک آزمائش سمجھیں۔ چونکہ آزمائش میں اچھے اور دیرینہ دوست ہی کام آتے ہیں اس لئے ایک بہترین دوست کے طور پر چودھری نثار کی خدمات سے استفادہ کریں، ان کے کندھے پر کچھ ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالیں اور انہیں نیا وزیر اعظم نامزد کریں۔ میری رائے یہ تھی کہ ایسا کرنے سے بہت حد تک ممکن ہے کہ چودھری نثار اپنے کنکشن کو ایکشن میں لا کر نواز شریف کے لئے بھی کچھ نہ کچھ راہ نکال لیں گے اور اگر ایسا نہ بھی کر پائے تب بھی نون لیگ کو ٹوٹ پھوٹ سے تو ضرور بچا لیں گے۔ مگر افسوس میاں نواز شریف نے میری ان تجاویز اور صائب مشوروں کو ایسے ہی رد کر دیا جس طرح انہوں نے اپنے دوست چودھری نثار کے مشوروں کو اہمیت نہیں دی۔
دیکھنا یہ ہے کہ اب مسلم لیگ نون کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا یہ جماعت ایک لیڈر شپ کے تحت متحد رہ سکے گی؟ اس کا آئندہ کون سا ایسا لیڈر ہو سکتا ہےجو اسے یک جا رکھ سکے؟ ان سوالوں کا جواب ابھی ملنا باقی ہے۔ بہت سے لوگ وزرات عظمی سے میاں نواز شریف کی نااہلی کو ایسے ہی بہت آسان لے رہے ہیں جیسے ماضی میں پیپلز پارٹی کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد نئے وزیراعظم کے طور پر راجہ پرویز اشرف کی نامزدگی تھی۔ ان دوستوں کو مگر یہ یا د نہیں کہ اب صورتحال اس سے قدرے مختلف ہے۔ وہ اس طرح کہ گیلانی صاحب کی نااہلی کے وقت پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور صدر مملکت آصف علی زاردی تھے لہذا انہوں نے باآسانی اس مسئلہ کو حل کر لیا لیکن عدالت سے سزا یافتہ میاں نواز شریف پولٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت کسی سیاسی جماعت کے صدر تو درکنار کسی اس کے عہدیدار بھی نہیں بن سکتے۔ یقینا اب تازہ ترین صورتحال میں نواز شریف مسلم لیگ نون کے صدر نہیں رہے۔ چودھری نثار علی خان جنہوں نے سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ آنے کی صورت میں وزارت اور قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو نے کا اعلان کیا تھا ابھی تک قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی نہیں ہوئے۔ وزیر اعظم کی نااہلی کے بعد کابینہ تحلیل ہونے کے باعث وزیر تو وہ از خود نہیں رہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تازہ ترین صورتحال میں چودھری نثار علی خان نون لیگ میں الگ سے کوئی دھڑا بنا کر سامنے آتے ہیں یا اپنے اعلان کے مطابق خاموشی اختیار کرتے ہیں اور آئندہ کے لئے سیاست سے الگ ہوجاتے ہیں۔
قارئین، ملک میں آئندہ الیکشن میں ایک سال سے کچھ کم وقت باقی ہے۔ اس دوران اگر نون لیگ نیا وزیراعظم بنا بھی لیتی ہے تو یہ سوال پھر بھی اہم اور سیاسی حلقوں کی دلچسپی کا باعث بنا ہو اہے کہ کیا آئندہ الیکشن میں نون لیگ اسی طرح کامیاب ہو کر وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت بناسکے گی؟ کیا نون لیگ پنجاب مین اپنی مقبولیت برقرار رکھ سکے گی؟؟ ان تمام سوالوں کے حوالے سے میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ نون لیگ کے بارے میں پچھلے 40 سال سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر رہا ہے کہ اتفاق فونڈری سے لے کر شریف فیملی کی تمام انڈسٹری کے درپردہ سیاسی اثرورسوخ کے اثرات نمایاں رہے ہیں۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی پوری قیادت بشمول متحرمہ بے نظیر بھٹو تک سبھی متحرک رہے لیکن اب پانامہ کیس کی سماعت میں لندن فلیٹس سے لے کر منی ٹریل کی تمام صورتحال نے لوٹ مار کی ساری کہانی بے نقاب کر دی ہے۔اس لئے میرا خیال ہے کہ جس طرح گزشتہ الیکشن میں عوام میں پیپلز پارٹی کے سربراہ اور سابق صدر پاکستان آصف علی زاردی کے بارے میں کرپشن اور دیگر ایشو کا تاثر ابھر کر سامنے آیا۔ یہ خطرناک تاثر الیکشن میں یوں خوفناک اثرات کا باعث بنا کہ الیکشن 2008 کی فاتح اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کو پورے پنجاب سے قومی اسمبلی کی محض دو نشتیں ہی مل پائیں۔ یوں لگتا ہے کہ نون لیگ کے ساتھ ایسی ہی کوئی صورت بن سکتی ہے۔ میرے اس خیال کی کچھ دوسری وجوہات بھی ہیں جن میں نون لیگ کی متوقع اندرونی ٹوٹ پھوٹ بھی شامل ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ اس بار اسٹیبلشمنٹ اندر کھاتے ویسا ہی اقدام کر سکتی ہے جیسا 1990 کے الیکشن سے قبل اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے پی ٹی وی پر قوم سے خطاب میں یہ کہہ کر کیا تھا کہ "میں نے مردے کو کفن پہنا دیا ہے اب دفنانا آپ کا کام ہے”۔ پھر ایسےہی ہوا تھا کہ 1988 کے الیکشن میں پنجاب کی قومی اسمبلی کی 105میں سے 52 نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی محض دو نشتیں ہی جیت سکی اور پورے پاکستان میں سےفقط 17 نشتوں کے ساتھ اپوزیشن جماعت بن گئی تھی۔
قمرالزمان بھٹی ایک تجربہ کار صحافی ہیں اور صحافتی آزادی اور حقوق کی جنگ لڑنے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستگی کے ساتھ لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کے مسلسل تین سال رکن اور پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ سرمایہ دار طبقے، طبقاتی نظام اور ان کے نمائندوں ک خلاف کھل کر لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn