حکیم مؤمن کے نام کے ساتھ ایک طوائف اُمت الفاطمہ صاحب جی کا نام وابستہ ہے، جس طرح سورج سے اس کی کرنیں اور چاند سے اس کی چاندنی، علامہ شبلی نعمان نے پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی 1900ء میں جس خاتون سے کی وہ مولانا سے بہت چھوٹی تھیں، اتنی چھوٹی کہ مولانا اس بات پر راضی تھے کہ شادی کے بعد کچھ وقت مجردی میں گزرا دیں، تاہم یہ خاتون 1905ء میں چل بسیں، انہی ایام میں وہ عطیہ فیضی سے ملے، ان کے عشق کا اندازہ جہاں تک ان کے کلام سے ہوتا ہے اس کی نوعیت کم وبیش جنسی ہے، یہی وجہ ہے کہ، قاضی احمد میاں جونا گڑھی کو کہنا پڑا کہ ان کی غزلیں گرما گرم ہیں، اور حالی یوں گویا ہوئے ❞کوئی کیونکر مان سکتا ہے کہ یہ اس شخص کا کلام ہے جس نے سیرۃ النعمان، الفاروق اور سوانح مولانا روم جیسی مقدس کتابیں لکھی ہیں، عطیہ فیضی اپنی خاندانی ڈائری میں علامہ شبلی کے بارے میں لکھتی ہیں ❞بے چارے بڈھے میاں گو کہ پرانی وضع کے ہیں مگر خیالوں میں وسعت ایسی ہے کہ کاش آج کل کے نئی روشنی والوں میں ذرہ سی یہ بات ہوتی❝ عطیہ فیضی نے ایک یہودی آرٹسٹ فیضی رحمین سے شادی کر لی تو یہ عشق وقعت کھو بیٹھا، شبلی اور عطیہ فیضی کے معاشقے کا بہت شور رہا، لیکن شہاب الدین دسنوی نے اسے جھوٹ اور قابلِ استثناء قرار دیا.
مفکرِ پاکستان حضرت علامہ اقبال سے متعلق عام طور پر حسن وعشق کی داستانیں مشہور ہیں، یہ کس قدر بے سر وپا اور بے بنیاد ہیں یہ امر تحقیق طلب ہے، کہتے ہیں کہ وہ اپنے عنفوانِ شباب میں اپنے عہد کے دوسرے نوجوانوں سے مختلف نہ تھے، اپنی شامیں طوائفوں نسیم کشمیرن، بی بی سدا بہار، بی بی خورشید، ہجروکی کے ہاں جاتے اور حقہ کھینچتے، ایک مرتبہ ایک طوائف کا گلا دبا ہی دیا تھا اگر اس کو بچانے دلال نہ آ جاتے تو وہ اس کوٹھے سے قبرستان پہنچ گئی ہوتی، علامہ اقبال 1905ء میں یورپ گئے، وہاں عطیہ فیضی اور جرمن خواتین میں دیگے ناست، مس سنی شیل سے ملاقاتیں رہیں، ان سے ان کا ذہنی اور جذباتی تعلق رہا، خاص طور پر عطیہ فیضی جو مرکزِ ثقل کی حیثیت رکھتی ہیں، علامہ شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کے کوائف تو منظرِ عام پر ہیں، جو ان کے خطوط سے واضح ہوتے ہیں، مگر حیرت ہے کہ عطیہ دونوں کے ساتھ پُر فریب رویہ قائم کیے رہیں اور ایک فاصلہ بھی، یہ وجہ ہے کہ ان کے رومانی تعلقات کی نوعیت یکطرفہ رہی، ایل کے گابا کے مطابق 52/51 سال کی عمر میں اقبال نے بہت کم سن لڑکی سے شادی کی، مقویات، مبیہات کے عادی ہوگئے، نتیجہ یہ ہوا کہ اعضائے رئیسیہ جواب دے گئے، ایک ہندو ڈاکٹر سے معلوم ہوا کہ اقبال V. D. جیسی علامات رکھنے والے مہلک مرض کے نرغے میں آئے ہوئے تھے.
عشق میں کہتے ہیں حیران ہوئے جاتے ہیں
یوں نہیں کہتے کہ انسان ہوئے جاتے ہیں
چراغ حسن حسرت ابھی سکول کے طالبِ علم ہی تھے کہ ایک خوش گلو اور خوش رو مغنیہ ❞پونچھ❝ میں وارد ہوئی، وہ ایک رات کی مجلس میں اس کا گانا سننے گئے، اور اس خاتون پر نثار وشیدا ہوگئے، بزرگوں نے اس فعل پر لعن طعن کی اور پھر حسرت کو پونچھ چھوڑنا پڑا، برسوں بعد زینت بیگم سے شادی کی، حسرت جیسا کلاسیکل ذوق رکھنے والا حسن پرست ادیب شادی کے باوجود ان مکروہات سے دور نہ رہ سکا، رات کو کلبوں کا طواف بھی کرتا تھا، ممنوعہ علاقوں میں جاکر شجر ہائے ممنوعہ سے لطف اندوز بھی ہوتا تھا، فوجی ملازمت کے دوران سنگاپور میں اس کی ملاقات ایک نیم فرنگی خاتون مریانہ سے ہوئی، چھ ماہ کے عرصے پر محیط ان کا یہ طوفانی عشق ان کی دوبارہ وطن واپسی کی صورت میں ختم ہوا.
بلراج ورما کے خیال میں کرشن چندر عورت کے معاملے میں بہت کمزور تھے، راجندر سنگھ بیدی سے بھی زیادہ یہ شخص اخلاق سے بے تعلق تھا اور بہت بڑا عشق باز تھا، عشق مزاجی کرشن جی کے دل ودماغ بلکہ روح پر بھی تا عمر سوار رہی، سلمی صدیقی نے ان کی زندگی میں اگر اس بیمار روش کو روک نہ دیا ہوتا تو وہ دل کی بیماری سے نہیں کسی جنسی بیماری سے جاتے، اس اعتبار سے سلمی صدیقی کو ان کے لیے ایک بہت بڑا شگون سمجھتا ہوں.
میرا جی کے بارے میں یہ روایات عام ہیں کہ اس نے ایک بنگالی لڑکی میرا سین کو دیکھا اور اس کے عشق میں اس درجہ اسیر ہوا کہ اس نے اپنی ہیئت تبدیل کر لی، نہ صرف ثناء اللہ سے میرا جی بن گیا بلکہ محبوبہ کی ہر شئے حتی کہ اس کی زبان، مذہب، اور مذہبی روایات بھی اسے عزیز ہوگئیں، جنسی کج روی کا شکار ہوا، نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا.
فراق گورکھپوری عشق کے معاملے میں جنسی تفریق کے قائل نہیں تھے، وہ تو امرد پرستی کو بھی قابلِ اعتراض اور قابلِ مذمت نہیں سمجھتے تھے، جگر مراد آبادی نے پہلا عشق نوجوانی ہی میں مراد آباد کی انتہائی حسین طوائف سے عرفِ عام میں پنجابن کہلاتی تھی سے کیا، قابلِ ذکر معاشقوں میں روشن فاطمہ کا نام بھی ہے، جس کے لیے انہیں جیل بھی جانا پڑا، معروف غزل گو اصغر گونڈوی انہیں زندگی کی صحیح ڈگر پر لانے کے لیے اپنی نہایت سلیقہ شعار سالی نسیمہ خاتون سے ان کا نکاح کردیا، جگر کو سدھارنے کی ترکیب نا کام ہوئی تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ تم نسیمہ کے لائق نہیں ہو ان سے طلاق دلوادی اور اپنی اہلیہ کو طلاق دے کر خود نسیمہ سے نکاح کر لیا، اس واقعے کو برسوں گزر گئے، یہاں تک کہ اصغر صاحب کا آخری وقت آن پہنچا اور وہ وصیت کر گئے کہ جگر جب بھی شراب سے توبہ کر لے نسیمہ سے ان کا نکاح کردیا جائے، تب جگر صاحب کے اندر کا انسان جاگا، وہ تائب ہوئے اور پھر نسیمہ سے دوبارہ شادی بھی ہوگئی.
ساحر لدھیانوی کو معاشقوں کا جادوگر کہا گیا، ساحر کے معاشقوں کی اس کی اپنی من گھڑت یا سچی سی داستانیں بہت ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم نام ❞امرتا پریتم❝ ہیں جنہوں نے بعد میں اپنے اس معاشقے پر ❞رسیدی ٹکٹ❝ بھی چسپاں کردیا تھا تاکہ سند رہے، امرتا پریتم کے ایک بیٹے کی شکل ہو بہو ساحر جیسی تھی.
قمر زمانی بیگم بھی اردو ادب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا انوکھا کردار ہیں، سید نظام شاہ دلگیر نے 1913ء میں ایک ادبی رسالہ ❞نقاد❝ جاری کیا، اشاعت اچھی خاصی تھی، اس کے باوجود دلگیر نے اس کی اشاعت بند کردی، یار لوگوں نے کوشش کی یہ سلسلہ دوبارہ جاری ہو، لیکن دلگیر کسی طور نہ مانے، نقاد کے دوبارہ اجراء کے لیے یہ سلسلہ ایک دو سال جاری رہا، وہ حقائق جو نصف صدی تک پردہء اخفاء میں رہے انہیں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے مضمون ❞قمر زمانی بیگم علامہ نیاز فتح پوری کی انوکھی داستانِ معاشقہ❝ میں واضح کردیا.
سعادت حسن منٹو کے ابتدائی افسانوں میں لالٹین، مصری کی ڈلی بیگو، نا مکمل تحریر، ایک خط اور چند ایسے افسانے ہیں جن کا تعلق منٹو کی اپنی زندگی کی پہلی اور آخری محبت سے ہے، یہ واقعہ ❞بٹوٹ❝ کا ہے، جہاں منٹو تپِ دق کا علاج کرانے گیا تھا، بیگو یا وزیرن ایک خوب صورت لڑکی تھی، اور بکریاں چراتی تھی، وہ آوارہ اور بد چلن تھی، منٹو یہ بات جانتا تھا لیکن اس کے ساتھ ایک اندھے افلاطونی عشق میں مبتلا ہوگیا تھا، منٹو کی روح میں عجب ویرانگی تھی، وہ شوبز کی دنیا میں رہتے ہوئے بھی بے تعلق تھا، اپنے بارے میں خود کہتے ہیں ❞میری زندگی میں دو تین لڑکیاں آئیں مگر وہ نوکرانیاں تھیں، ان سے میرا تصادم ایسے ہی ہوا تھا جیسے سڑک پر راہ چلتے دو اندھے آپس میں ٹکرا جائیں اور چٹکیوں میں اس تصادم سے فراغت حاصل کر کے اپنی اپنی راہ لیں❝ اختر الایمان نے پہلا باقاعدہ عشق ایک شادی شدہ عورت قیصر سے کیا، شادی سلمی خاتون سے ہوئی، پہلے ہی روز اپنی سالی سے عشق کر بیٹھے بیوی نے ان کی بے اعتنائی کا شکار ہوکر ظہور نامی ایک رشتہ دار سے مراسم بڑھا لیے، اختر الایمان نے اسے طلاق دے دی، بعد ازاں سلطانہ سے عشق ہوا فسادات کے سبب والدین نے دلہن سلطانہ کو دولہا اختر الایمان کے حوالے کردیا، نہ ڈھولک بجی نہ ناچ گانا ہوا، بس وہ دو جوڑوں میں اختر الایمان کی بیوی بن گئیں.
ن م راشد کی پہلی شادی ان کی مرضی کے خلاف ہوئی، بیوی نہایت صابر اور سلیقہ مند خاتون تھیں، دوسری شادی ان کے ایک عشق کے نتیجے میں ایک یورپی خاتون سے ہوئی جس نے انہیں ناقابلِ بیان اذیتوں میں مبتلا کیے رکھا.
جانثار اختر شراب نوشی اور شاعری کی طرح عاشقی میں بھی مشہور رہے، ایک شادی شدہ خاتون فاطمہ زبیر سے تعلق رہا، فاطمہ زبیر کے دو لڑکوں کے نکاحی والد زبیر تھے، ان لڑکوں میں بڑے کا نام نثار پرویز تھا، اس کا ذکر صفیہ اختر کے خطوط میں کئی جگہ ملتا ہے.
عصمت چغتائی ایک بار فلم اسٹوڈیو گئیں، ان کے ایک بھائی کو علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئے اور انہیں گھر سے نکل جانے کو کہا، وہ تاؤ میں آکر گھر سے باہر نکل آئیں، اتفاقاً شاہد لطیف اسی وقت عصمت سے ملنے کے لیے اپنی کار میں آئے، دیکھا کہ وہ گھر بدر کھڑی ہیں، کار میں بیٹھا کر اپنے گھر لے گئے، رات کی رات وہ شاہد لطیف کے گھر رہیں، صبح کو بمبئی کی ایک سوشل ورکر مسز سیانی نے انہیں ایک ہوسٹل میں جگہ دلادی، مگر شاہد کے گھر رات گزارنے والا معاملہ سکینڈل بن گیا، چار ونا چار یہی حل نکالا گیا کہ عصمت چغتائی مسز شاہد لطیف بن گئیں.
جوش ملیح آبادی کی ❞یادوں کی بارات❝ میں شامل اٹھارہ معاشقوں کے تذکرہ کو بھی ناقدین نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا، اکثریت کا خیال تھا کہ ان کو جوش کے شاعرانہ طرزِ بیان ہی کا کرشمہ سمجھنا چاہیے، جوش نے امرد پرستی سے آغاز کر کے ہر طرح کے ناقابلِ یقین واقعات کا ہالا اپنے اطراف یوں بُنا ہے کہ اس سے روشن ہونے کے بجائے ان کا چہرہ دھندلا جاتا ہے، بہرحال اس حقیقت سے انکار یوں بھی نہیں کیا جاسکتا جب مصنف خود اعتراف کر رہا ہو، مس میری رومالڈ، مس گلیسنی، ج ب ع خ بہت سے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے.
شاعر مزدور احسان دانش اپنی سوانح حیات میں ایک رقاصہ ❞شمعی❝ کا ذکر خود ہی کر بیٹھے.
فیض احمد فیض جب گورمنٹ کالج لاہور میں زیرِ تعلیم تھے، پہلے عشق کا تیر ان کے سینے میں اٹھارہ برس کی عمر میں لگا، بقول فیض انجام وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے، اس کی شادی ہوگئی اور ہم نوکر ہوگئے، پہلے عشق کی ناکامی کا غم ابھی طاری تھا کہ امرتسر ایم او کالج میں فیض کی ملاقات ڈاکٹر رشیدہ جہاں سے ہوئی، انہوں نے انہیں کارل مارکس کی ایک کتاب ❞کمیونسٹ مینی فیسٹو❝ دی اور پھر فیض پکار اٹھے، مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ، سحاب قزلباش نے فیض احمد فیض کے بارے میں اپنا مضمون ❞ستارہ وفا❝ میں ایک جگہ لکھا ہے ❞فیض صاحب مجھے یقین ہے کہ وہ سیالکوٹن جو تھی نا! وہ آپ کی مسیحا اور بمبئی کی پنڈتانی اور یہ چھوٹی خاتون جو سگریٹ لینے گئی ہیں، ساری چھوٹی بڑی خواتین میدہ شہابی رنگت اور تیکھے نقشوں والی ہیں، اس لیے آپ کو اچھی لگتی ہیں❝ ایلس فیض کی رفاقت بھی انہی خصوصیات کے سبب نصیب ہوئی.
ساقی فاروقی نے احمد ندیم قاسمی کے نام ایک خط میں یہ جملہ لکھا ہے ❞شادی سے پہلے احمد ندیم قاسمی نے بھی ایک لڑکی سے عشق کیا تھا، جی ہاں! اس تعلق میں جنسی تجربات بھی شامل تھے، یہ آپ کا فقرہ ہے❝.
عبد الحمید عدم کا ایک کمپلیکس یہ بھی تھا کہ جب ان کی طبیعت خوش ہوتی تو وہ یہ چاہتے کہ کوئی حسینہ زلفیں بکھرا کر اور کالا لباس پہن کر ان کو شراب پلائے، جنگِ عظیم دوم کے دوران عدم ہندوستانی افواج کے ساتھ سات سمندر پار گئے تو وہاں ایک عراقی خاتون ملکیہ سے عشق ہوا، شادی کر کے ساتھ لائے، یہاں آکر اسے عدم صاحب کی پہلی شادی کا علم ہوا، وہ یہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ نہ ہوسکیں اور وہ واپس چلی گئیں، عدم صاحب کو جہلم کی شاہدہ اس لیے اچھی لگتی تھی کہ وہ ملکیہ کی ٹرو کاپی (True Copy) تھی.
(جاری ہے)
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn