عُمر کے اُس پڑاؤ پر جس میں بچوں کے جسم میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں ،اُن کا دماغ نئی سوچوں کی آماجگاہ بن رہا ہوتا ہے ، وہ نئے تجربات سے روشناس ہو رہے ہوتے ہیں ،وہ اپنے وہم ، گُمان اور شک کا جواب چاہتا ہے۔ جب انہیں جھڑک کے ، مذہب کا خوف دلا کر اور مذہب کی بحث کو شجرِ ممنوعہ بنایا جاتا ہے تو وہ بغاوت پہ آمادہ ہو جاتے ہیں۔یا جب وہ قول اور فعل کا تضاد دیکھتے ہیں تو اندر ہی اندر کھولتے ہیں۔
میرا بچپن ننھیال میں گُزرا۔نانی جنہیں ہم اماں کہتے تھے ، سفید کپڑے ، سفید دوپٹہ ، سفید بال اور ہاتھ میں سو دانوں کی تسبیح ۔صُبح کی نماز سب سے لمبی ہوتی تھی ، فرض، نفل، مُناجات، پھر تسبیح، بلکہ تسبیحیں ،صاف ظاہر ہے کہ اِس عمل سے مُجھے بھی گُزرنا پڑتا تھا۔ جذبہ ِ پدری نے جوش مارا تو ابا مجھے تعلیم کے لئے اپنے پاس لے گئے۔گرمی کی چھٹیوں میں کبھی کبھار اماں کے پاس چکر لگتا رہتا تھا۔اسکول سے کالج پہنچے تو نئے نئے دوست نئے نئے موضوعات ، عجیب و غریب بحثیں ،دلیل غائب خود کو منوانے کا جذبہ مونہہ زور، گرمی کی چھٹیوں میں گیا تواماں مصلے پہ تھیں ۔میں اُن کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ جب فارغ ہو کر دعائیں پڑھ کے میرے چہرے پر پھونکا تو میں نےاماں سے ایک سوال پوچھا۔ اماں یہ تسبیح کے سو دانے کیوں ہیں؟ایک سو پانچ یا پچانوے کیوں نہیں؟ یہ سن کر اماں بالکل ناراض نہیں ہوئیں بلکہ میرے گال کو سہلا کے بولیں، میرے چاند ،فرض کرو،ایک خزانہ کہیں دفن ہے اور تمہارے پاس اُس خزانے کا نقشہ ہے،اُس نقشے پر لکھا ہے کہ شمال میں پہنچ کر فُلاں پیڑ سے سو قدم جا کے زمین کھودو تو خزانہ مل جائے گا ،اگر تُم ایک سو پانچ قدم یا پچانوے قدم پر کھودو گے تو کیا وہ خزانہ ملے گا؟ میرے ماتھے پہ بوسہ دے کر پوچھا اور کوئی سوال۔اماں کبھی اسکول نہیں گئی تھیں ۔عربی، فارسی اُردو گھر میں ہی پڑھی تھی۔یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد محض یہ بتانا ہے کہ تشکیک دور کرنے کے لئے رہنما چاہیے۔ہادی کے بغیر ہدایت نہیں ملتی۔دُنیا میں بڑی بڑی عمارتیں زلزلوں اور آندھیوں سے کیوں نہیں گرتیں؟کیوں کہ اُن کی بُنیادیں گہری ہوتی ہیں۔نئی نسل کو الزام مت دیجئے۔اُن سے مکالمہ کیجئے وہ کسی بھی مکتبہ فکر سے ہوں۔ اگر آپ دلیل لے کر جائیں گے تو وہ ضرور قائل ہوں گے۔اگر آپ روایتی مولوی اور ڈنڈے سے حل چاہتے ہیں تو بات بگڑے گی۔اس بحث میں یہ کمنٹس پڑھ کر بہت دُکھ ہوا کہ جون ایلیا کی مثال دی گئی ۔جون ایلیا نے کبھی اس کا دعوی نہیں کیا کہ جو نظریات اُن کے ہیں وہ سب شیعہ حضرات کے ہیں یا شعیوں نے یہ کہا ہو کہ آج سے دینِ مُحمدی ختم ہم جون ایلیا کی پیروی کریں گے۔ایسا کچُھ نہیں حضرت جوش ملیح آبادی کی مثال دی ہوتی وہ بھی ایسے ہی تھے۔ایک شخص یا سو پچاس یا اس سے بھی زیادہ لوگ اگر کوئی ذاتی عقیدہ رکھتے ہیں تو اِس کا الزام ایک مسلک پہ کیوں۔ اِس کی مثالیں آپ کو ہر جگہ مل جائیں گی۔
ن م راشد اُردو آزاد نظم کا ایک ستون مانے جاتے ہیں۔ دُنیا میں جہاں جہاں یونیورسٹیوں میں اُردو پڑھائی جاتی ہے وہ شامل ِ نصاب ہیں۔اُردو افسانہ بغیر عصمت چغتائی کے نامکمل ہے۔ بلا شبہ وہ اُردو کا بڑا نام ہیں۔ دونوں نے وصیت کی تھی کہ اُنہیں دفنایا نہ جائے بلکہ جلایا جائے۔ دونوں اہلِ سُنت تھے۔ن م راشد کو اُن کی وصیت کے مطابق اٹلی میں جلایا گیا اور عصمت چُغتائی کو بمبئی میں۔تو کیا جناب کے فارمولے سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ یہ اہلِ سُنت کا عقیدہ ہے۔ ہرگز نہیں، وہ ذاتی عقیدے کے اسیر تھے۔ میرا مشرب صُلحِ کُل ہے۔ میں اکثر ایسے موضوعات پر نہیں لکھتا لیکن کُچھ باخبر دوستوں کی بے خبری کی وجہ سے لکھنا پڑا ۔
الحاد متعدی بیماری ہے۔ یہ جراثیم کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ اِس کے علمی ، فکری اور عملی پہلؤوں اور اُن کے تدارک پہ بات ہو سکتی ہے اور ہونی چاہئیے ۔جب تک آپ سائنس اور مذہب پہ عُلما اور سائنس دانوں کا مکالمہ نہیں کراتے یہ مرض بڑھے گا کم نہیں ہوگا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn